دوسری شادی
آپا کیوں رو رو کے خود کو اتنا ہلکان کر رہی ہیں، کر رہے ہیں مجاہد بھائی دوسری شادی ،تو کر لینے دیں- خود ہی مرغا بن کے توبہ نہ کریں، تو پھر کہنا- صوفے پر لیٹے ہوئے مزے سے پوپ کارن کھاتے ہوئے اس نے آپا کو مشورے سے نوازا- جانے کب سے اماں کے پہلو سے لگی مجاہد کی دوسری شادی کا رونا رو رہی تھیں- مجاہد کی جگہ اگر اعظم ہوتا نا ،تو پھر تم سے پوچھتی
آپا نے روٹھے ہوئے لہجے میں کہا. انہیں ناجیہ کا مشورہ بالکل پسند نہیں- قسم لے لیں آپا جو منع کروں بلکہ اعظم ارادہ تو باندھے- ایمان سے ساری رسمیں کرواؤں گی ،اپنے ہاتھوں سے دلہن سجاؤں گی ان کی- اس کے چہرے پر ایک شکن تک نہیں آئی تھی- سچ کہہ رہی ہو اندر اتے اعظم نے اس کی بات سن لی -اور فورا تصدیق چاہی- 100 فیصد، وہ صوفے پر اس کے لیے جگہ بناتے ہوئے بولی
اور اماں اسے گھورتی رہ گئی دیکھ لو پھر تم مکر نہ جانا -اعظم نے جیسے بات پکڑ لی تھی -کبھی نہیں، وہ اس قدر اعتماد سے بولی کہ راشدہ بھی اپنا غم بھول کر اسے دیکھنے لگی- ناجیہ ذرا میرے ساتھ کچن میں آنا -اماں نے اسے حکم صادر کیا- ان کے پیچھے وہ کچن پہنچ گئی ،پاگل ہو گئی ہو تم کچن میں داخل ہوتے ہی اماں اس کی طرف تیزی سے پلٹی تھی کہ وہ اچھی خاصی گھبرا گئی- توبہ امی دل نکال لیا میرا آپ نے- وہ دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تمہیں سنبھال رہی ہوں، تمہارا دل نہیں نکال رہی سمجھھی
امی کو غصہ آ گیا -غضب خدا کا شوہروں کے سامنے کوئی ایسے دھڑلے سے شادی کی بات کرتا ہے- ہاں تو امی سچ کہہ رہی ہوں میں شریعت کو سمجھتی اور مانتی ہوں – ایسا نہیں کروں گی کہ آپا کی طرح رو رو کے سارے خاندان نے اپنے شوہر کا نام خراب کروں- وہ کچھ دیر پہلے فرائی کیے شامی کباب اٹھا کر کھانے لگی- شریعت کو سمجھتی تو یہ نہ کہتی- اماں نے پلیٹ اس کے سامنے سے اٹھا لی
شریعت میں صاف ہدایت ہے کہ عورت کی عزت، کردار دیکھ کر اسے پسند کیا جائے- نہ کہ اس کی ظاہری حسن اور دکھاوے سے- اور یہ بھی واضح ہے کہ سب کے حقوق برابر دیے جائیں کسی کی خاطر کسی کو حقیر نہ جانا جائے- اور ادھر مجاہد ابھی سے ساری ساری رات گھر سے باہر گزارنے لگا ہے- خرچے میں راشدہ بیچاری کو تنگ کر رہا ہے
بچوں تک سے ملنے کا وقت نہیں رہا اس کے پاس- اماں بس بولتی چلی گئی ،ایسا ہے کیا ؟ناجیہ کو افسوس نے آ گھیرا- اور نہیں تو کیا وہ چائے کپوں میں ڈال کر ٹرے میں رکھتے ہوئے بولی- اور اب بھول کر بھی کبھی شوہر کے سامنے اس طرح کی بات مت کرنا- مرد کا دماغ گھومتے دیر نہیں لگتی- کچھ الٹا سیدھا ہو گیا تو روتے ہوئے میرے پاس مت آنا – اماں یہ کہہ کر کچن سے چلی گئی اور وہ ان کے پیچھے سر جھٹکتی چلی گئی
عدیل اعظم کا جگری دوست تھا اور کولیگ بھی، اکثر رات کو کھانے پر ان کی طرف آ جاتا تھا اور وہ دونوں بھی اس کے ساتھ کو خوب انجوائے کرتے تھے- بھابی ذرا نظر رکھا کریں اعظم پر – آفس میں بہت خوبصورت سٹاف بھرتی ہوا ہے -وہ کھانا لگا رہی تھی کہ عدیل نے شریر لہجے میں اعظم کی طرف دیکھتے ہوئے اسے چڑانے کے لیے کہا -نظر رکھ کر کیا کرنا ہے عدیل بھائی- ناجیہ مسکراتے ہوئے بولی -دیکھ لیں بھابھی پھر ہاتھ ملتی نہ رہ جائیں
یہ نہ ہو اعظم دوسری بھابی کا بندوبست کر لیں اور اپ کو خبر ہی نہ ہو -عدیل نے مزید وضاحت کی -بکو مت اعظم نے اس کے کندھے پر مکا جڑ دیا- رہنے دیں شوق کرنے دیں پورا ان کو ،مشکل ہو جائے گی مجھے کیا پرابلم ہونی ہے- ناجیہ نے ناک پہ سے مکھی اڑائی- دیکھا میری بیوی کی طرف سے کھلی اجازت ہے تم اپنی فکر کرو اعظم مسکراتے ہوئے بولا – تو تو واقعی لکی ہے یار – بھابھی آ پ کو ماننا پڑے گا
وہ نازیہ کی طرف دیکھتے وقت بولا – ویسے اس میں میرا کوئی کمال تو نہیں کیونکہ یہ تو مرد کا حق ہے- لیکن پھر بھی شکریہ- ناجیہ تعریف قبول کرتے کچن کی طرف بڑھ گئی- کیا خیال ہے ذرا بھابی کو آزمایا نہ جائے؟ وہ فورا شرارت سے اعظم کی طرف جھکا-کیا مطلب؟ ویسے یار اعظم عدیلہ ہے بڑی قاتل چیز- وہ اچانک ہی بولا- عدیل نے کچھ سوچ کر اعظم کوآنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اور نازیہ کو دیکھ کر خاموش ہو گیا
نازیہ نے نا سمجھی سے اعظم کو دیکھا لیکن اسے کھانا کھاتے دیکھ کر وہ سر جھٹک گئی -اس کا خیال تھا اعظم خود ہی سے اسے عدیلہ کے حوالے سے بتا دے گا- کیونکہ وہ کوئی بات اس سے نہیں چھپاتا تھا- عدیل چلا گیا اعظم افس کا کام لے کر بیٹھا تو وہ کچن صاف کرنے آ گئی-عدیل بھائی کس کی بات کر رہے تھے، برتن دھوتے ہوئے دماغ میں یہ بات اٹکی رہی- بار بار اس کی دوسری شادی کا ذکر کر کے تم نے اسے یہ ادراک دے دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں آزاد ہے اور تم بھی اس کے ساتھ ہو
تو رنگ بدلتے دیر نہیں لگے گی اعظم کو، آ ج کل تو ویسے ہی مرد کے لیے کتنی چوائسسز ہیں- اگر آفس میں کوئی لڑکی دل کو بھا گئی تو اعظم ذرا دیر نہیں لگائے گا ،اسے اپنا لے گا -اماں کی آواز نے ایک دم ہی اس کا دل بوجھل کر دیا اس نے بد دلی سے کام کیا اور کمرے میں آ گئی- اعظم کسی سے موبائل پر بات کرتے ہوئے مسکرا رہے تھے اسے اندر آتا دیکھ کر فورا اللہ حافظ کہہ کر کال بند کر دی –
آج تو سب کچھ پرسرار لگ رہا ہے مجھے – ناجیہ نے کھوجتی نظروں سے اعظم کو دیکھا- یار جلدی سے لائٹ آ ف کرو- صبح میں نے جلدی آفس جانا ہے- اس کی طرف پشت کرتے اعظم نے کہا ،اور وہ ساکت بیٹھی رہ گئی وہ بھلا کہاں اس کے بازو پہ سر رکھے بنا سوتی تھی- اس کے نزدیک دال میں ضرور کچھ کالا تھا -انہی تفکرات میں گھری وہ سو بھی نہ سکی-بارش بہار کی آ مد کا پتہ دے رہی تھی
اور اندر اس کا دل نہ جانے کیوں خزاں سا ہوا جا رہا تھا -اداس ، کھانا پکا کے وہ ہمیشہ کی طرح ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی- اس کا پسندیدہ ڈرامہ آ نے والا تھا- وہ کچھ دیر بت کی طرح بیٹھی رہی، ٹانگیں لمبی کر کے لیٹی نہ ہی میز پر سے پوپ کارن کی پلیٹ اٹھانے کی زحمت کی- بس چپ چاپ ٹی وی کی سکرین کو تکتی رہی
یہاں تک کہ آنکھیں جلنے لگی -تب موبائل نے شور مچایا اس نے آ نکھیں رگڑ کے صاف کی- اور فون اٹھا لیا دوسری طرف اعظم تھا- جی اعظم ..یار میں آج لیٹ ہو جاؤں گا- تو پلیز کھانا کھا لینا -میرا انتظار مت کرنا- اعظم نے ہدایت دی لیکن اعظم، اعظم آ جائیں یار- کسی نے دور سے اعظم کو پکارا تھا- وہ زنانہ آواز تھی ناجیہ چپ رہ گئی- کچھ نہ بولی- گھر آ کر بات کرتے ہیں
ٹیک کیئر محبت اور عجلت بھرے انداز میں کہہ کر اس نے کال منقطع کر دی- اور ناجیہ کی پلکیں بھیگنے لگی تھیں- کہیں مجاہد بھائی کی طرح اعظم بھی کسی کولیگ کے ساتھ …اس سے آ گے کی سوچ سے روح تک کانپ گئی تھی- مرد ہی چار چار شادیاں کر سکتا ہے حق ہے اس کا -اندر سے کہیں سے طنزیہ آوازآ ئی – آفس میں بزی ہوں گے -میں بھی نا اس نے فورا خود سے نظر چراتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط کیا
یہ اور بات کہ اعظم کے آنے تک نہ کھانا کھانے کو دل کیا -اور نہ ہی کچھ اور کرنے کو- بس چپ چاپ بے چینی سے ادھر ادھر ٹہلتی رہی- اور پھر یہ معمول بنتا گیا اعظم اب اکثر گھر دیر سے آتا- دونوں وقت کا کھانا بھی باہر ہی کھاتا– ناجیہ بس انتظار ہی کرتی رہ جاتی، جس وقت گھر پہ رہتا وہ وقت بھی زیادہ تر موبائل میں مصروف رہتا، لمبی لمبی کالز اور ہونٹوں سے چمٹی مسکراہٹ- ناجیہ کا تو سکون غارت کر گیا تھا- وہ فورا اماں کے پاس دوڑی چلی آ ئی
اور کرو ڈرامے کتنی بار میں نے سمجھایا تھا کہ ہوش کے ناخن لو، سوتن کو جھیلنا آسان نہیں ہوتا -سب بڑے بول ہیں، لیکن نہیں تمہیں تو بہت شوق تھا اب کرو شوق پورے – پہلے اماں بہت برسی پھر اس کے بعد آنسو بہتے دیکھ کر ان کا دل پسیج گیا- میں خود آ کر اعظم سے بات کروں گی تم پریشان مت ہونا
اماں نے تسلی دی تھی- نہیں امی ..آپ بات مت کریں کیا پتا ناراض ہو جائیں ،اور ہو سکتا ہے زیادہ شیر ہو جائیں کہ جو بات پہلے ڈھکی چھپی تھی میں خود ہی سنبھالنے کی کوشش کروں گی ورنہ ،ورنہ کیا؟ ورنہ میں ان سے الگ ہو جاؤں گی اماں- وہ سسک سسک کر رونے لگی میں ان کے ساتھ کسی دوسری عورت کا سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی
اور اماں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھری- آج اس کی سالگرہ تھی وہ بڑے دل سے تیار ہوئی تھی نیوی بلو کلر کی ساڑھی جس پر وائٹ رنگ کے جگمگاتے موتی لگے ہوئے تھے- سفید کلر کی ہی لائٹ جولری- آج تو آپ کو میری طرف لازمی پلٹنا پڑے گا اعظم – آئینے میں اپنے سراپے پر ستائشی نظر ڈالتے ہوئے وہ خود سے مخاطب ہوئی – آج ان کی دعوت تھی عدیل کی طرف- شام ہونے والی تھی لیکن اعظم کا کچھ پتہ نہ تھا
اعظم میری برتھ ڈے کیسے بھول سکتے ہیں ؟بلا اخر اسے مایوسی گھیرنے لگی- تبھی ڈور بیل کی آ واز پر وہ دوڑتی ہوئی پہنچی- السلام علیکم بھابھی ہیپی برتھ ڈے -عدیل پھولوں کا گلدستہ لیے کھڑا تھا – اس نے اداس مسکراہٹ سے تحفہ قبول کیا- آپ لاک لگا کر نیچے آ جائیں میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں ،عدیل نے کہا- تو وہ چونکی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی عدیل جا چکا تھا
پھول لے کر اندر آئی تو اس کا فون بج رہا تھا اعظم کا نام دیکھتے ہی اس نے کال پک کر لی- سوری ناجیہ میرے ایک بہت پیارے دوست کی برتھ ڈے ہے مجھے وہاں جانا ہے- تم عدیل کے ساتھ چلی جانا میں تمہیں وہیں جوائن کروں گا بائے-عدیل بھائی اور بھابھی اسے کمرے میں بٹھا کر نہ جانے کہاں غائب ہو گئے، وہ بے چینی سے پہلو بدلتی رہی- تب ہی ٹیرس پر عجیب سی روشنیاں پھیل گئیں
وہ اٹھ کر باہر ٹیرس پر گئی- رنگ برنگے برقی قمقموں سے سجا ٹیرس اسے خوشگوار حیرت میں ڈال گیا- سالگرہ کا سارا اہتمام وہاں کیا گیا تھا- میز کے عین درمیان میں کیک رکھا ہوا تھا جس پر چاندی کے ورق کے ساتھ اس کا نام لکھا تھا -ہیپی برتھ ڈے ناجیہ ائی لو یو الاٹ- وہ اداسی سے مسکرائی- اعظم بھی ہمیشہ ایسے ہی لکھوایا کرتا تھا- اس کی سالگرہ کے کیک پہ- تبھی اسے جاسمین کی مہک نے اپنے حصار میں لے لیا
اعظم اس نے آ نکھیں بند کر لیں ایک انسو بند توڑتا گال پر لڑھک گیا- ہیپی برتھ ڈے اعظم کی جان- بھاری لہجہ اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں اعظم آپ حیرت اور خوشی دونوں اس کی آواز میں شامل تھے- تو اور کون ہو سکتا ہے آپ کے اتنے قریب – وہ مسکرا دیا -لیکن آپ تو وہ ابھی بھی حیران تھی- میں نے کہا تو تھا کہ میرے بہت پیارے دوست کی سالگرہ ہے- تو تم ہو نا میری سب سے اچھی دوست- اور وہ عدیلہ – وہ ابھی تک بے یقین تھی خود چیک کر لو
اس نے عدیلہ کا نمبر نکالا – اور کال ملا کر اسے دے دیا- وہ حیرت سے دوسری طرف جانے والی رنگ سنتی رہی – ہاں یار بولو اب ہم اندرآ جائیں – ابھی بھی تیرا رومانس باقی ہے – کال پک ہوتے ہی عدیل کی مسکراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی- اعظم نے فون لے کر کال بند کر دی – اب پتہ چلا – میرے لیے سب کچھ تم ہی ہو- سارا کھیل نازیہ کی سمجھ میں آ گیا – اور وہ اس کے سینے سے جا لگی – آپ بہت برے ہیں اعظم- وہ سسک رہی تھی بھئی اب کیک کاٹ لو- ورنہ بھوک سے میں تو شہید ہو جاؤں گا- عدیل اور آمنہ اندر آئے تو وہ جھٹکے سے اعظم سے الگ ہو گئی – آپ نے بہت غلط کیا عدیل بھائی – وہ اب بھی عدیل سے ناراض تھی
جو بھی ہے بھابی اب پھر کبھی دوسری شادی کی حمایت نہ کیجئے گا- ورنہ اگلی بار میں سچ مچ کسی عدیلہ کے حوالے کر دوں گا – آپ کے ہیرو کو- اس کی بات پہ سب ہنسنے لگے – بدتمیز ، اعظم نے اسےآنکھیں دکھاتے ہوئے مضبوطی سے ناجیہ کا ہاتھ تھاما – اور ناجیہ نے دل میں شکر ادا کیا اور خود کو اطمینان دلایا کہ اس کے اعظم کے دل میں صرف وہی تھی صرف وہی-