معزور نسل
کیا یہ ایک سُلگتا ہوا اور دُکھ بَھرا سَچ نہیں ہے جو اس معاشرے کے تقریباً ہر گھر میں پَنپ رہا ہے؟
معذوری !
لڑکا یا لڑکی
جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے ہیں، صحت قابل رشک ہے مگر گھر میں ایسے رہتے ہیں جیسے خصوصی افراد۔۔۔
صبح اٹھیں گے، بستر ویسے ہی بے ترتیب چھوڑ دیں گے۔۔۔ کہ ماں آ کر یہ درست کر دے گی۔
کپڑے تبدیل کریں گے۔۔۔
جہاں اتارے وہیں یا کسی کونے کھدرے میں رکھ چھوڑیں گے۔۔۔
ماں آئے گی، اٹھائے گی، دھوئے گی، استری کرے گی اور واپس ترتیب کے ساتھ ان کی الماری میں رکھ دے گی۔
کھانا انہیں تیار ملنا چاہیئے
کھانے سے پہلے یا کھانا کھا چکنے کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ پلیٹیں اٹھانا یا گلاس واپس رکھ چھوڑنا بالکل بھی نہیں۔۔ماں آئے گی اور وہی یہ سارے کام کرے گی۔
اسکول، کالج یا یونیورسٹی جائیں گے
واپس لوٹیں گے تو سونے کے لیے
اسنیپ چیٹ، واٹس اپ یا ٹِک ٹاک پر مستی کے لیے۔۔۔ ٹویٹر، انسٹاگرام پر وقت گزاری کے لیے یا پھر اپنے پنسدیدہ سیریل اور ڈرامے دیکھنے کے لیے
کھانا وہیں بیٹھے منگوائیں گے
فقط لقمے کے لیے ہاتھ بڑھانا یا اسے نِگلنا ان کا کام ہو گا
اس کے لیے بھی ان کا شکریہ
کیونکہ اس کے بعد انہوں نے ٹی وی یا لیپ ٹاپ یا آئی پیڈ پر دوبارہ جہاد کے لیے واپس جانا ہو گا
کبھی کبھار یہ اپنے فارغ وقت میں گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھنے کی مہربانی بھی کر دیتے ہیں
مگر کیا مجال ہے کہ اس دوران یہ اپنے موبائل کی اسکرین سے نظریں ہٹائیں
یہ اپنے اُن پیاروں کے نزدیک رہنا چاہتے ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کوئی کمنٹ کیا ہے
قیمتی اسٹیٹس اپلوڈ کیا ہے
یا کوئی تصویر بھیجی ہے
فوراً کمنٹ کر کے ان کی دلجوئی کرنا ان کا اولین فرض ہوتا ہے۔۔۔
اور یہ والے صاحبان— گھر میں بَھلے کوئی انتہائی چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو، وہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے۔
اپنی جگہ پر گَند مَچا کر اُٹھ جاتے ہیں
کھانا پسند نہ آئے تو ناراض ہونا اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں
گھر میں کوئی قابلِ مرمت کام یا قابلِ تبدیل چیز دیکھ بھی لیں تو انجان بن کر گزر جاتے ہیں
کیونکہ یہ ذمہ داری تو باپ کی ہوتی ہے
صفائی ستھرائی یا ترتیب ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے
بَدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ یہ دِلسوز مَنظر تقریباً ہر گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اِن سب وجوہات کی بِنا پر ہم بَرملا یہ کہہ سکتے کہ تمام اعضاء صیح سلامت ہونے کے باوجود بھی ہم ایک معذور نَسل پروان چڑھا رہے ہیں
جی ہاں بالکل ایک معذور نَسل
خیر سے ہماری تیار نسل کے تصرفات دیکھیے تو لگتا ہے یہ اس گھر میں مہمان ہیں۔
نہ کوئی تعاون کرنے والے
نہ ہی کسی کام میں مدد کرنے والے
نہ کوئی اپنے اطراف کی کوئی ذمہ داری اٹھانے والے
پرائمری اسکول سے لے کر کالج یونیورسٹی تک
بلکہ نوکری لگ جانے کے بعد بھی
وہ اپنے والدین کے گھر میں مہمان بن کر رہتے ہیں
وہ کسی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے ما سوائے جیب خرچ لینے اور ماں باپ پر رُعب ڈالنے کے
ماں باپ دونوں گھر کی ذمہ داریوں اور مُنہ زور اولاد کے رُعبُ و دَبدبے کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں
بَھلے عُمر جتنی ڈھلتی جائے اور قویٰ کتنے ہی کمزور کیوں نہ پڑتے جائیں۔
کیونکہ وہ خود ہی تو نہیں چاہتے کہ اولاد کو ان کے ہوتے ہوئے کوئی تکلیف اٹھانا پڑے
اور اس سب کے بعد اس اولاد نے سیکھا کیا ہے؟
معذوری
دوسروں پر توکل اور بھروسہ
کیونکہ آپ نے ان کی بنیاد ہی ایسے رکھ دی ہے
اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے
تو آپ کی اس محبت کے نتائج کیسے نکلنے ہیں؟
پیارے والدین اور سرپرست صاحبان
اپنے بیٹے یا بیٹی کو گھر میں کچھ ذمہ داریاں اٹھانے کی عادت ڈالیے
ان کی شخصیت کی تعمیر اور سماجی طور پر ان کو سرگرم کیجئے
ذمہ داری لینا انہیں مضبوط بناتا ہے اور آنے والی چیزوں کا سامنا کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔
جب کہ ان کا ہر پل ہر گھڑی ماں باپ اور دوسروں پر انحصار انہیں سست، کمزور اور کمتر بناتا ہے۔
ماں اور باپ اگر اپنے بیٹے اور بیٹی کو اپنے گھر کی ذمہ داری اور حالات کا سامنا کرنا نہیں سکھائیں گے تو ان کی زندگی آنے والے دنوں میں بَد سے بَدتَر ہوتی جائے گی جس کے صرف اور صرف آپ ذمہ دار ہوں گے۔
یاد رکھیے
دنیا کے دیئے ہوئے سبق آپ کی توقع سے زیادہ چونکا دینے والے، بے رحم اور زیادہ ظالم ہوں گے۔
اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنے گھر میں مہمان نہ بنائیں
بلکہ انہیں آہستہ آہستہ روزمرہ کے گھریلو معمولات کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے کا پابند کیجئے۔۔۔