Home » دل کے ارمان

دل کے ارمان

 

دل کے ارمان

 

لکھ ،خالہ جبین بمع اہل وعیال، اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کیے۔ لکھ دیا اماں ! اس نے لکھا ہوا کارڈ ایک سائیڈ پر رکھا اور دوسرا کارڈ اٹھایا۔ اماں! تائی سروری کو تو جلدی کارڈ بھیج دینا حیدر آباد سے خانیوال کا سفر بھی لمبا ہے اور کچھ تیاری بھی تو کرنی ہوگی شادی کی ۔ چھنو نے اماں کو یاد دہانی کروائی۔
دفع کرتائی، سروری لے کے کیا آئے گی شادی میں ۔ ہمیں ہی بھگتنا پڑ جائے گا اسے ، ساتھ میں دو چار پوتا پوتی کو لٹکا لائی تو کونڈا کر دیں گے ہمارا تو- ہاں اماں اٹھیک کہتی ہو، پلنگ پر پڑی پڑی حکم چلائے جائیں گی اور پان کا خرچا الگ کروائیں گی- اے بیٹا! جلدی سے بنارسی تمباکو کا سانچی پان بنوا کر لائیو، سر چکرا رہا ہے۔ طبیعت بڑی بوجھل ہو رہی ہے۔
گلوری منہ میں رکھوں تو کچھ طبیعت سدھرے ۔ پورے سات پان بنا کر چلی تھی گھر سے ٹرین میں یونہی اپنا چاندی کا پاندان کھولا۔ پورے ڈبے میں پان کی دل فریب مہک سب کے نتھنے مہکا گئی۔ کیا مرد، کیا عورت سب ہی نے للچائی نظروں سے ایسے دیکھا کہ منہ میں رکھا پان چبانا مشکل ہو گیا۔ میں نے بھی سارے پان ندیدوں میں بانٹ دیے۔
نظر میں آیۓ پان کھا کر مجھے اپنی طبیعت تھوڑی خراب کرنی تھی ۔ عمار نے ہوبہوتائی سروری کی پوپلے منہ کے ساتھ نقل اتاری تو سب کی بھونڈی ہنسی سے فضا گونج گئی- حالاں کہ تمہاری تائی تو وہ بخیل ہستی ہے جو کسی کو اپنا بخار بھی نہ دے۔ ساٹھ پان تو اس نے اپنی زندگی میں نہ کھائے ہوں گے ۔ ایک پان کو چٹکی چٹکی کھاتے ہفتہ نکال دیتی ہے۔
اماں نے تائی سروری کے مزید گن گنوائے تو سب نے ان کی تائید میں اپنی موٹی گردنیں پورے زور سے ہلائیں۔ چل اب ماموں شرف کا کارڈ بھی لکھ دے، سگا نہیں ہے تو کیا ہوا؟ سگوں سے بڑھ کر چاہتا ہے تمہیں۔ بہن سمجھ کر ہمیشہ ہر موقع پر کھڑا رہا ہے تو اس موقع پر کیسے بھول جاؤں میں اس کو ۔ ماموں زاد کی محبت امڈ کر آئی۔ اماں! رشتے داروں کے کارڈ تو مکمل ہو گئے۔
اب ذرا محلے والوں کی طرف آجاؤ۔ ہاں بھئی ۔ محلے والوں کا تو پہلا حق ہے ان کو بھلا میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں ۔ انگلیوں پر محلے داروں کو گننے لگیں کہ کس کس کو بلانا ہے۔ ابھی تک کارڈ لکھنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا؟ یہاں پیٹ میں چوہے دوڑ دوڑ کر بے دم کر رہے یں۔ خدا کے لیے اٹھ کر کچھ شکم سیری کا سامان بھی کرلو- کاشی اماں کے پاس آکر دھم سے گرا تو وہ اسپرنگ والے صوفے کی وجہ سے اچھل پڑیں اور اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولیں- ایک دن پیٹ پوجا نہ کی تو کیا ہوگا۔
پھر بھی اتنی ہی بھوک ستارہی ہے تو جا اور دو کریم رول پکڑ لا اوردودھ کے ساتھ کھائے۔ انہوں نے اسے اپنے پاس سے اٹھا کر باہر کی طرف دھکیلا اور پھر کارڈز کی طرف متوجہ ہوئیں۔ اماں ذرا جلدی بولو، ایمان سے میری تو کمر بھی تختہ ہوگئی۔ لکھتے لکھتے انگلیاں بھی دکھنے لگیں۔ اتنی دیر تو میں کبھی امتحانی کمرے میں نہیں بیٹھا جتنی دیر سے میں اس جس زدہ کمرے میں بیٹھا کارڈ لکھ رہا ہوں۔
معمر کا رڈز پکڑے پکڑے اماں کی گود میں لیٹ گیا۔ لو تم تو لکھتے لکھتے تھک گئے اور ہم تمہیں دیکھ دیکھ کر ہی اکڑ گئے ہیں، چھنو پر جھنجلاہٹ سوار تھی کیونکہ اس کے پسندیدہ ڈرامے کا ٹائم ہو چکا تھا مگرماں کا حکم تھا کہ یہاں سے کوئی نہیں ہلے گا جب تک کارڈ مکمل نہ لکھ لیے جائیں ، کیا پتا دماغ میں کوئی ضروری نام لکھنے سے رہ جائے تو ان میں سے کوئی یاد تو کروا دے گا۔
اے زیادہ چلانے کی ضرورت نہیں ڈرامے کی آگ لگ رہی ہے تو جا دفع ہو،جا کے دیکھے اپنی پرکٹی سفید پاؤڈر میں لتھڑی چٹی کبوتریوں کو ، یہ عمار ہے ناں میرا بچہ دماغ کا تیز، اس سے پوچھولوں گی اگر کوئی نام ذہن سے نکل بھی گیا تو ۔ عمار اپنی تعریف سن کر مزید پھیل کر بیٹھ گیا اور چھنو قلانچیں بھرتی ہوئی ساتھ والے کمرے میں دوڑ گی۔
اماں پھر سے معمر کو نام لکھوانے لگیں- اکرام کباڑیے کا نام بمع فیملی لکھ دے، ہے تو بے چارا کباڑیا پر دل کا بڑا سخی ہے جتنا اس کے گھر والے کھا کے جائیں گے ، اس سے چار گنا زیادہ دے کر جائیں گے۔ اماں جلدی جلدی بولو، اب تو پنسل بھی جواب دینے لگی ہے پھیکا پھیکا سا لکھ رہی ہے۔ ہاں بس اب اپنی یہ گلی میں وہ جو لمبا سالڑکا رہتا ہے۔
ارے وہی جو دفتر میں کام کرتا ہے۔ لمبی سی کا ر ہے جس کے پاس اماں نے نام یاد نہ آنے پر عمار کی طرف دیکھا۔ نور عالم، عمار نے فورا ماں کا مطلوب نام زبان سے ادا کیا۔ ہاں وہی نور عالم ! انہوں نے محبت سے عمار کے لمبوترے سر پر اپنا سیاہی مائل ہاتھ پھیرا- اماں! ان سے تو ہماری کوئی سلام دعا نہیں ہے، ان کو تو رہنے ہی دو ۔
ویسے بھی وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں۔ ہمارے عجیب الخلقت خاندان کو دیکھ کر وہ کیا سوچیں گے ؟ معمر نے نام لکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ اے میں کہہ رہی ہوں لکھ۔ اس کی بیوی سے سلام دعا ہے میری۔ ایک دو مرتبہ گلی سے گزرتے ہوئے اس نے مجھے سلام بھی کیا اور اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی ہے۔ اتنا بڑا گھر ہے اس کا تو دل بھی بڑا ہی ہوگا ناں۔ وہ اس کے ٹائلوں والے گھر سے کچھ زیادہ ہی متاثر لگ رہی تھیں۔
لو بھئی اماں میرا کام تو ختم ، ایمان سے اب تو نیند بھی آنکھوں میں بھر گئی ہے۔ اس نے انگڑائی کے ساتھ ہی بڑی سی جمائی بھی لی مگر اگلے ہی پل اس کے انگڑائی لیتے بازو فضا میں ہی رہ گئے۔ اماں نے بھی صوفہ چھوڑا اور اپنے بھاری بھر کم وجود کو سنبھالتی باہر تخت کی طرف بھاگیں ۔ جہاں منور حسین سر جھکائے شکست خوردہ سے بیٹھے تھے۔ کیا ہوا منور حسین ٹھیک تو ہو مگر ادھر گھمبیر خاموشی تھی۔
اے کچھ تو بتاؤ۔ یوں منہ لٹکا کر بیٹھ گئے میرا تو دل ہولئے دے رہے ہو۔ اماں بھی وہیں تخت پربیٹھ گئیں- چھنو بھی ادھورا ڈرامہ چھوڑ کر منور حسین کے قدموں میں بیٹھ گئی اور منور حسین چھنو کے سر پر ہاتھ رکھ کر رندھی آواز میں بولے۔ مجھے معاف کر دینا میری بیٹی تجھے اب چند جوڑوں اور معمولی جہیز میں ہی اس گھر سے رخصت ہونا ہو گا- کیا اول فول بولے جارہے ہو، کیا سٹھیا گئے ہوا سیدھی طرح اصل بات کی طرف کیوں نہیں اتے- ماں نے جھنجلا کر ان کے ناتواں کندھے پر ہاتھ مارا تو ان کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز واضع سنائی دی۔
باقی سب بھی منہ کھولے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ وہ منور حسن ہکلاے ۔ ہاں ہاں بولو، اماں نے ان کے خضاب والے بالوں پر ہاتھ پھیر کر حوصلہ دیا اور پانی کا گلاس ان کے کپکپاتے لبیوں سے لگایا جو عمار ان کی حالت کے پیش نظر لے آیا تھا۔ پانی پی کر کچھ حالت تو سنبھلی تھی مگر آواز ابھی بھی کانپ رہی تھی۔
مگر صورت حال سے سب کو آگاہ کرنا بھی لازمی تھا۔ وہ ہاجرہ بیگم انیسہ سلطانہ نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ خبر سنا کر وہ چور سے بن گئے۔ کیا، الفاظ تھے یا بم ، ہاجرہ بیگم کوغش آگیا۔ چنھو اپنے میلے دوپٹے کو منہ میں پھنسا کر دبی آواز سے رونے کی۔ عمار اور بلو کے چہروں پر بھی یہ خبر سن کر مردنی چھا گئی مگر اماں کی حالت دیکھتے ہوئے انہیں جلدی سے ان ہی کے لہسن پیاز کی بساندھ میں رچے دوپٹے سے ہوا دینے لگے۔
چلو بھر پانی ان کے منہ میں ٹپکایا تو انہوں نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور بھرائی ہوئی آواز میں منور حسین سے مخاطب ہوئیں۔ پرمنور حسین ! انکار کی کوئی وجہ بھی تو بتائی ہوگی اس نے، ہاں ۔ منور حسین نے سرد آہ بھری۔ وجہ سن کر ہی تو میرے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ اے اب بتا بھی چکو، نہیں ہورہا صبر مجھ سے۔ انہوں نے اپنا سینہ مسلا۔ دو دن پہلے ہارٹ اٹیک ہوا ہے اسے ۔ کل ہی اسپتال سے گھر آئی ہے۔
آج اس نے مجھے فون کر کے بلایا۔ کہنے لگی میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ تم شادی کے چند دن یا چند ماہ بعد ہی رنڈوے ہو جاؤ۔ میں تمہارے جیسے مخلص شخص کو یہ دکھ ہرگز نہیں دوں گی۔ منور حسین یہ بات بتاتے ہوئے تقریباً رو ہی دیے، اور اماں کا تو یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ہائے یہ کیا ہوا؟

لاکھوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث انیسہ سلطانہ منور حسین کی دور پار کی رشتہ دار تھیں ۔ بھاری بھر کم ہونے کے باعث رشتہ ہی نہ ہو سکا جو آتا وہ انکار کرکے چلا جاتا اور شادی کی عمر نکلتی چلی گئی۔ ماں باپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد وہ اس مکان میں بالکل تنہا رہ گئیں۔ سرکاری اسکول میں نوکری کرتی ہزاروں کمارہی تھیں ۔ ابھی ریٹائرمنٹ لے کر لاکھوں روپے کی مالک بنی تھیں۔
سنا تھا جوانی میں منور حسین پر بڑی آس لگائے بیٹھی تھیں اور اسی آس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاجرہ بیگم نے اپنے شوہر منور حسین کا رشتہ انیسہ سلطانہ کے سامنے رکھا تو وہ بھی کچھ پس وپیش کے بعد مان گئیں کہ تنہا رہتے رہتے وہ بھی اوب گئی تھیں اب اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام وہ بھرے پرے گھر میں گزارنا چاہتی تھیں۔
ہاجرہ بیگم نے ان کو شیشے میں ایسا اتارا کہ وہ منور حسین کی سادگی اور پر خلوص رویہ دیکھ کر آنے والے دونوں کے تصور سے ہی کھلی کھلی رہنے لگیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہاجرہ بیگم کا یہ خواب کہ دو کمروں کے گھر سے انیسہ کے بڑے سے پختہ و خوب صورت مکان میں شفٹ ہو جائیں گے ، بیٹی خوب جہیز لے کر رخصت ہوگی اور انیسہ کی ساری کمائی میرے بیٹوں کے کام آئے گی۔ ان کے تو دن ہی پھرجائیں گے۔
بڑی دور کی سوچی تھی، انہوں نے تو اپنے شوہر میں بٹوارہ بھی اسی بنیاد پر برداشت کرنے کی ٹھان لی تھی۔ یہ کڑوی گولی نکلنے کا فیصلہ اپنے بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے کیا تھا مگر سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔

1 thought on “دل کے ارمان”

  1. Pingback: Urdu Stories Love -

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top