Home » سمیرا بہو

سمیرا بہو

 

سمیرا بہو

سمیرا بہو جب آئی تھی آتے ہی چھا گئی تھی۔ نصیبن بوا نے سارے محلے کی بڑی کی سیٹ سنبھالی اور سمیرا بہو نے بہو ہونے کی ۔ سمیرا سب کی بہو تھی اوپر سےسگھڑ سیانی اتنی کہ ہر کوئی مشورہ لینے آتا۔ بہو کا میاں شہر کمانے نکلا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا- پھر محلے میں ہی چاٹ چنے کی ریڑھی لگائی۔ سمیرا بہو کے سلیقے کے سبب گھر کی گاڑی چلنے لگی۔ ہر دل عزیز سمیرا بہو آج نصرت بیگم کے ہاں تھی۔
نصرت کا اکلوتا بیٹا شہریار کل ہی لڑکی بھگا کر لایا تھا۔ ظاہر ہے کہ گھر سے بھاگی لڑکی اچھی تو نہیں تھی جو جشن منائے جاتے۔ نہ ہمدردی رکھنے والوں کی کمی تھی، نہ منہ میں بڑبڑانے والوں کی۔ نصرت بیگم جلد از جلد اس سے چھٹکارا چاہتی تھیں ۔ اس لڑکی سے ان کی نسل بڑھے، یہ انہیں کسی صورت قبول نہیں تھا۔ اندر ان کا بیٹا شیری ان کی منت سماجت کے بعد اب بیوی سے نجانے کون سے راز و نیاز کرنے میں مگن تھا۔
وہ لڑکی جس کا واپس جانا نہ شیری کو منظور تھا نہ یہ بھیانک قدم اٹھانے والی کو۔ دوسری طرف نصرت بیگم تھیں جنہیں وہ کسی بھی طرح قبول نہ تھی – طریقہ کوئی بھی ہو اسے اس گھر میں نہیں رکھنا تھا۔ سگھڑ سیانی سمیرا بہو نے گھر میں قدم رکھا تو نصرت بیگم کو بڑی ڈھارس ملی ۔ ایک وہ ہی تو تھی جو دل کا بوجھ ہلکا کرتی۔ وہ اٹھ کر پہلے تو گلے لگ کر خوب روئیں۔ برباد کر دیا شیری نے ۔
ہائے وائے کلیجے پر ہاتھ پڑنے رونے دھونے کا سلسلہ تھما تو نصرت بیگم نے سمیرا بہو کی طرف دیکھا۔ اب تم ہی بتاؤ، آخر کیا کروں میں ، نکاح کر کے لایا ہے اس بدبخت کو ، پتا نہیں کیسا گھرانہ ؟جیسی گھر سے نکلنے والی ہے۔ ویسا ہی بدبختوں کا گھرانہ بھی ہوگا ۔ ان کی تشویش کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ نہ بال بنائے تھے نہ رات سے کھانا کھایا تھا۔
نقاہت الگ سے ہو رہی تھی اور دل کا حال تو جو تھا سو تھا کوئی راستہ نکلے تو وہ ڈوبتے دل کی تسلی پائیں۔ شیری خدا کرے یہ سمجھ جائے یہ لڑکی ٹھیک نہیں ہے ان کے لیے میں کیسے سمجھاؤں آخر – وہ روہانسی ہو کر بول رہی تھیں ۔ جیسے اپنا درد کہہ کر خود کو خالی کردینا چاہتی ہوں اصل میں اب وہ تھیں بھی خالی ہاتھ, ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔
سمیرا بہو نے انہیں دل گرفتہ دیکھا تو بولی۔ ” کیوں دل برا کرتی ہیں آپا جی آپ ایسی عشق محبت والیاں بھی بھی گھر بنا پائی ہیں عشق وشق کا نشہ ہے۔ شیری جوان جہان ہے ایک دو مہینے میں اتر جائے گا عشق وشق کا نشہ – یہ مہندی جو لگا کے اندرگھسی ہے ناں اس کے اترنے ,پھیکا پڑنے سے پہلے ہی کان پکڑ کے باہر نکال دے گا۔ شیری مرد ذات ہے اس کا کیا اعتبار ۔
بڑی دیکھی ہیں اعتبار کرنے والیاں- ڈوبی ہی ہیں تیری نہیں ہیں آج تک- آپ بس تماشا دیکھیے چپ چاپ جو آپ چاہ رہی ہیں ہوگا تو وہی ناں – جھکے سر تیری قدموں میں نہ آبیٹھے تو نام بدل دینا سمیرا بہو کا ۔

اور آپا جی اب میں چائے کا پانی چڑھانے جارہی ہوں۔ منہ ہاتھ دھو ، بال سنوار لو ، روئیں آپ کے دشمن بڑی بہنوں کی طرح ہیں ہماری ، درمیان میں بھی مدد کی ضرورت پیش آئے تو سو بار حاضر ہوں۔ ایک آواز دے کر دیکھیں۔ میں فوراً آجاؤں گی – زرا دل اداس ہو تو ہمارے گھر چلی آئیں مل بیٹھ کے دل کا سارا غبار نکال لیا کریں گے –
سمیرا بہو نے دوپٹہ اچھی طرح لپیٹا اور کچن میں گھس گئیں۔ نصرت بیگم نے بال سنوارے منہ ہاتھ دھو کر خود کو پر سکون محسوس کیا اور کچھ سوچتے ہوئے گرم چائے لبوں سے لگا لی- سمیرا بہو سچی تھی حکمت عملی اور صبر سے کام لینا ہوگا ورنہ کچھ نہیں بچتا نہ ان کے گھرانے کی ناموس اور نہ وہ خود ۔ ایک اکلوتا بیٹا تھا سوچ سمجھ کر ہی چلنا ہوگا کیا ہوا جو یہ آئی ہے۔ چلے ہی جانا ہے اس نے میں کیوں دل برا کروں –
سمیرا کی باتوں میں دم تھا۔ ان کی جان میں جان آئی تھی ۔ کبھی ماں سے بھی بیٹے جدا ہوتے ہیں۔ گرم چائے کے کپ کو لبوں سے لگائے ساتھ ایک بسکٹ بھی انہوں نے اٹھا لیا۔ پھر مزید بسکٹ لے لیے , بھوک اور نقاہت سے برا حال تھا۔ اب کچھ توانائی بحال ہوئی تھی ۔ سمیرا بہو نے کچن سمیٹ دیا اور پاس آکر کہنے لگی ۔ ذرا اس کمینی کی بھی خبر لے کر آتی ہوں ۔ پتا تو چلے بھاگ کے آئی کہاں سے ہے کس خاندان کی ہے۔
سمیرا بہو سے ہی معلومات مل سکتی تھی وہ ہی اسے سمجھ کر انہیں اس کی کمزوریاں بتا سکتی تھی۔ ” ہاں ہاں تم ضرور جاؤ اندر بلکہ جا کر بیٹھو اس کے پاس میں ذرا آرام کر لوں بہت تھکن ہورہی ہے۔ پتا نہیں میری دوائیاں کہاں ہیں بی پی ہائی ہو رہا ہے۔ ابھی تو یہیں تھیں انہوں نے ادھر ادھر ہاتھ مارنا شروع کر دیئے تھے۔ اتنے میں سمیرا بہو نے دو کپ گرم چائے اور ساتھ میں بسکٹ نمکو وغیرہ لیے اور ہلکی دستک کے بعد اندر کمرے میں چلی گئی۔ وہ اسے جاتا دیکھے گئیں۔
کیسی اولا د ملی تھی کہ دل کا چین ہی لٹ چکا تھا۔ نیند کہاں سے آنی تھی کھڑکی پار مغرب کے بعد کا وقت دکھائی دیا تھا – پریشانی میں رات دن کا بھی ہوش نہیں رہا تھا ۔ تو سورج کی خبر کیسے رہنا تھی۔ اندر کمرے کے اداس ماحول میں مہندی کی خوشبو رچی بسی تھی۔ اس نے ایک بہت ہی ہلکے سے کام والا سوٹ پہن رکھا تھا۔گہری لمبی آنکھیں ، دیلی پتلی بیس اکیس کے درمیان , لگتی تو بھولی بھالی تھی ، پر اندر سے ایسی گھنی ۔
لعنت ہے تیری جوانی پر پتا نہیں کس کی بہن اور بیٹی ہے۔ سمیرا بہو نے سوچا اور قدم اندر بڑھا دیئے۔ آجا ئیں سمیرا آیا ۔ شیری کی ہلکی سی آواز میں سرشاری بھی تھی۔یہ ہماری سمیرا آیا ہیں محلے کی سب سے سمجھ دار آپا-ان کے مشوروں اور محبت کا تو میں بھی قائل ہوں – ان ہی سے بہن کا رشتہ بنا لو آج سے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم پریشان مت ہو شانزے ۔ تو یہ شانزے ہے۔
سمیرا بہو نے سوچا اور کپ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر دھر دیے۔ لو بھئی اب چائے وغیرہ تو پیو اور شیری کی باتوں میں تو بالکل مت آنا۔ اپنے محلے اپنے گھروں میں کیسی سمجھ داری اپنے گھر میں تو محبت اپنائیت ہوتی ہے ۔ بس خیال ہوتا ہے دکھ سکھ کا۔ ہلکا سا میک اپ ہی کر لیتیں سوٹ تو بہت پیارا ہے اور ہو خود بھی پیاری۔
اب جو ہوا سو ہوا تم دل چھوٹا مت کرنا ,میں ہوں ناں تم دونوں کی آپا اور آپا نصرت وہ تو ایسی ہی باتیں کریں گی۔ اتنی پیاری بہو ملی ہے اور منہ بنا کے بیٹھی ہیں چلو تھوڑا میک اپ کر دوں ۔ کچھ ہے پاس تمہارے کہ میں لے آؤں گھر سے ” اتنا دوستانہ اور ایسی حمایت شانزے کو بغیر کچھ کہے پہلی بار ملی تھی۔ ” آپ بہت اچھی ہیں آپا ! ” میں اچھی کہاں ہوں تم پیاری ہی اتنی ہو۔
” شانزے نے سکھ کی پہلی سانس لی شیری تیار ہو کر پیزا لینے نکل گیا اور جاتے جاتے ہزار کا نوٹ سمیرا بہو کو تھما دیا ۔ لیں آپا جی ! یہ بچوں کے لیے مٹھائی لے لیجیے گا اور ہمارے لیے دعا کریں سب ٹھیک ہو جائے ۔ شیری نے شانزے کو ذرا پرسکون پایا تھا۔ سمیرا آپا امی کو بھی سمجھا ہی لیں گی۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا میں شانزے کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا اور فریحہ سے شادی بھی کر نہیں سکتا ۔
شہری نے سوچا ,فریحہ کو دماغ سے جھٹکتا شانزے کی مہک دل میں لیے وہ پورچ سے گاڑی نکالنے لگا تھا ۔ واپسی پر سمیرا بہو نے نصرت بیگم کے کمرے کا چکر پھر سے لگانے کا ارادہ کیا پھر ان کے آرام میں خلل کے خیال سے چپکے سے لوٹنے لگی تھی کہ نصرت بیگم نے کروٹ بدلی اورسمیرا کو واپس بلا لیا۔ ایسے نہ جاؤ بہو،دیکھو کچن میں مٹن بریانی کی پتیلی پڑی ہے۔ ساتھ لے جاؤ اور فریج میں کچھ فروٹ ہے۔
وہ بھی نکال لو بچے کھا لیں گے، میں صبح چپاتی کھاؤں گی ۔ سمیرا نے مٹن بریانی اور پھل شوپر میں ڈالے اور گھر کی راہ لی ایک نیلے نوٹ کے ساتھ سبز ٹوٹ بھی تھا جو شانزے نے زبردستی اس کی مٹھی میں دیا تھا۔ جنگیں تو اس گھر میں ہونی ہی تھیں کبھی نصرت بیگم منہ پر کپڑا ڈالے رونے لگتیں کبھی شانزے کے دل پر ہاتھ پڑتا۔ دونوں کو سمجھانے کی ذمہ داری سمیرا بہو نے ہی سنبھالی تھی ۔

دونوں طرف محاذ گرم خوب تھا سمیرا بہو کی مٹھی بھی ٹھیک ٹھاک گرم رہی تھی ۔ ۔ “اے ناس پیٹی بڑھیا کیسے حلق پھاڑ کے چیختی ہے۔ بیٹا قبر میں لے کے جائے گی۔ شادی کرنی ہی تھی کرلی اب کیا چیخم دھاڑ- تو بہ تو یہ ایسی گھن گرج تو جوانوں کی بھی نہ ہووے ہے شہری محبت کرتا ہے, لاڈ کا ہے کو نہ اٹھائے دل کی مہارانی کے – شانزے نے تو سارے بل کس نکال دیے بڑھیا کے –
سمیرا بہو شانزے میں ایک سے ایک نئی امنگ جگاتی ۔ لڑائی کا جواب دینے کے نئے نئے گر سکھاتی۔ شانزے، نصرت بیگم کی ایک ایک کمزوری سے واقف ہو چکی تھی ۔ ” سمیرا بہو واقعی سمجھ دار ہے شانزے سوچتی پھر مسکرا دیتی۔ ادھر نصرت بیگم نے بھی ہتھیاروں کی کوئی کم کھیپ تیار نہیں کر رکھی تھی۔
وہ بھی بیٹے کے سامنے وہ مکر کرنے لگی تھیں کہ خود شیری کو یقین کرنا مشکل ہو جاتا کہ وہ سچی ہیں کہ جھوٹ کہہ رہی ہیں ، جھوٹ موٹ کے موٹے آنسو بھی سمیرا بہو نے ہی انہیں بہانا سکھائے تھے۔ شیری کا جینا دوبھر ہو چکا تھا۔ دل کی خوشی دل کا درد بن چکی تھی ، کام والیاں کام ختم کرنے کے بجائے مزے لے لے کر باتیں بنا تیں ایک کی پانچ لگا کر مکار بڑھیا اور چالاک بہو کے قصے بیان کرتیں ۔
بدنامیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا تھا۔ کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ سمیرا بہو نے وہ جنگ چھیڑ دی تھی کہ گھر کا چین رخصت ہوئے مہینوں گزر گئے ۔ ماں کو مناتا تو شانزے ناراض اور دونوں مل بیٹھنے کا سوچتی بھی نہ تھیں اور پھر سمیرا بہو کو یقین کامل تھا کہ اب وہ دونوں ایک بھی نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کے بچے مہنگا فروٹ خوب ڈٹ کر کھاتے تھے۔
فروزن فوڈز کے ذائقے سے الگ آشنا ہوئے تھے۔ دن یوں گزرتے ہی گئے-سمیرا بہو اپنے میکے بڑے بھائی کے ہاں گئی ۔ چھ سالوں بعد رب نے لڑ کا دیا تھا۔ سمیرا نے بھی کھلا خرچا لیا اور گوجرانوالہ روانہ ہو گئی۔ واپسی کا سفر کچھ دن طویل ہوا۔ اتنا طویل کہ پیچھے اس کی کایا ہی پلٹ گئی ۔ شانزے کے ہاں میلاد تھا۔ اسے بھی دعوت دی گئی گھر کی بندی تھی ۔
جلد ہی چلی گئی چکن پلاؤ ، پریانی ، قورمے کی دیگیں ، خوشبو ہر طرف دلوں کو للچا رہی تھی۔ نصرت آپا کی لاڈلی, شانزے کی بڑی بہن اس کا حق سب سے زیادہ تھا پر کون جانتا تھا کہ اب نظر انداز ہونے کا موسم تھا پتا نہیں کب دونوں مل بیٹھیں اور یہ مشوروں کی مماثلت والا بھید کھلا۔
شانزے گھر سے بھاگی ہے کہ بیاہی گئی یہ تو ذاتی مسائل تھے ان کے ،اور درمیان میں کیوں کودی یہ سمیرا بہو – پل میں وہ اس عزت سے محروم ہوئی ۔ جو سالوں سے بنی ہوئی تھی- نہ شانزے نے اسے بیٹھنے کا کہا نہ نصرت بیگم نے اور کسی بات پر اتفاق ہوا ہو کہ نہ ہوا ہو پر سمیرا بہو پر اتفاق ضرور کر لیا گیا تھا۔ آج کا دن پورا دن جو یہاں بیٹھے بیٹھے گزر گیا تھا نہ کچھ ہاتھ آیا نہ چاول کا لقمہ منہ میں گیا۔ کہیں سے کسی نے چاول کا چھوٹا سا شا پر اسے بھی لا تھمایا۔
لو بھی سمیرا بہو!”چلو چلو ” دریاں سمیٹ لو جلدی ورنہ خراب ہو جائیں گی۔ سب سے پچھے بیٹھی سمیرا بہو چپ چاپ اڑتے شاپروں کو دیکھنے لگی کہ اس جیسے لوگ بھی خالی شاپروں کی طرح ہوتے ہیں جو نہ اڑتے اچھے لگتے ہیں نہ مٹی میں دبے ہوئے۔ وقتی چمک دمک کے بعد کوڑے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ آج اس نے بھی خود کو کوڑے سے کم خیال نہیں کیا تھا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top