Home » Urdu Stories

Urdu stories

Urdu stories enclose various dramatic view, where rich cultural history and never-changing stories come alive.


Urdu stories

میرا فیصلہ

 

میں شادی کرنے سے انکاری تھی، کیونکہ مجھے سسرالی رشتوں سے چڑ تھی ،بلکہ نفرت تھی -ایک بندے کے ساتھ کے حصول کے لیے کیا ڈھیر سارے فضول رشتوں کو قبول کروں؟ ان کی اچھی بری باتیں سہوں، ناروا رویہ برداشت کروں – رنگت خراب ،صحت متاثر، آخر میں دماغ خراب – اس لیے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں یوں ہی زندگی گزار دوں گی – آزاد، من پسند، پرسکون ،لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
ہونی کو کوئی کیسے ٹال سکتا ہے – یہ سب کہاوتیں میرے آنگن کی دہلیز پر جمع ہو گئیں جب حیدر کا رشتہ میرے لیے آیا، تو انکار کی گنجائش نہ تھی اور میرے گھر والوں نے مجھ سے ہاں کروا کر ہی دم لیا – میں اپنی آزادی یعنی رسالے پڑھنا ،دیر تک سونا ،موبائل اور انٹرنیٹ پر مصروف رہنا ،وغیرہ وغیرہ کے خاتمے پر سخت پریشان تھی – میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں خود کوستی ساوتری ثابت نہیں کرنا چاہتی
– سسرالی رشتوں کو سر نہیں چڑھانا وہ میرے گھر ائے تھے میرا ہاتھ مانگنے، میں تھوڑی گئی تھی ان کے گھر ان کے بیٹے کا ہاتھ مانگنے – کوکنگ میری گزارے لائق تھی آملیٹ ، ہاف فرائی اور بوائل ایگ میں بنا لیتی تھی – مزاج بھی بس ٹھیک تھا اور میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں ایسے ہی رہوں گی- شادی کے تمام معاملات بخیر و خوبی انجام پا گئے – رسموں میں بدمزگی ہوئی نا حق مہر پر جھگڑا ہوا- نا بری میں آؤٹ فیشن کپڑے رکھے تھے نہ ہی ولیمے پر فضول میک اپ کرایا گیا
– ہر چیز نفیس اور عمدہ تھی، پر میں اپنے ہی غموں میں گرفتار تھی- سسرال کے خلاف منصوبہ بندی میں مصروف تھی- سو کسی اور طرف دھیان نہ گیا- چند دن کے ناز نخروں کے بعد اصل زندگی کا آغاز ہوا تو میں نے گھر والوں کے 14 طبق روشن کر دیے- لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا موقف بیان کر دیا – کچھ عملا اور کچھ لفظا – دراصل میں بلا ضرورت بولتی نہ تھی اور اس کا سبب میری کم گوئی نہ تھی، بلکہ میں صرف اپنی پسند اور اپنے مطلب کے لوگوں کو لفٹ کراتی تھی
ورنہ گم سم بیٹھی رہتی اور میری ساس کو میری اسی خوبی نے متاثر کیا- اب جو دلہن کو کفن پھاڑ کے بولتے دیکھا تو یقینا حیرت بنی بیٹھی تھی- ایک نند اپنے گھر کی تھی، ایک دیور اور ایک نند پڑھتے تھے -سسر اور میرے شوہر جاب کرتے تھے – خوشحالی تھی، پیسے کی ریل پیل میں خود کو بیڈ روم تک محدود رکھتی – کسی سے بات نہ کرتی- مجبورا کلام کرنا پڑتا ،تو میرا انداز ایسا ہوتا کہ سوال کرتے تو جواب دیتی
– میں سوال کرتی تو صرف جواب ملتا – میں اسے اپنی کامیابی سمجھتی- میرے پہننےاوڑھنے اور آ نے جانے پر کوئی پابندی نہ تھی – میری امی جو میرے خیالات پر ہولتی اور ٹوکتی تھیں اب مجھے اس طرح عیش کرتے دیکھ کر خوش ہوتی اور دعائیں دیتی تھیں

آپ کی سوچ غلط تھی امی ۔ میں کبھی آپ کو قالو نہیں کروں گی۔ میں ٹین ایج میں تھی جب امی سے یہ کہتی اور میں نے ایسا ثابت کر دکھایا تھا۔ اس کی وجہ میری دادی اور پھپھو کا امی سے ناروا سلوک تھا۔ بلکہ ظالمانہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ دادی سارا دن پلنگ پر بیٹھ کر حکم چلاتیں۔ پھپھو, مزاج دار دادا ,اور چاچو عضو معطل اور ابو ہے جس ۔ جب تک دادی زندہ رہیں۔ زندگی ایک سزا تھی۔
امی کے ملگجے کپڑے، بے رونق آنکھیں ، بری حالت ، ابو کو نظر نہ آتی ۔ سب لوگ امی پر ترس کھاتے ۔ ابو صرف تابع دار بیٹے تھے۔ ان حالات نے مجھے باغی بنا دیا اور خود سر بھی ۔ سو آج میں جو بھی تھی حالات کے رد عمل کے نتیجے میں بنی تھی ۔ یہ میرا خیال تھا) سرال میں سب نے میری ہٹ دھرمی پر سمجھوتہ کر لیا سوائے میرے شوہر کے – وہ مجھے ٹوکتے پہلے پیار سے اور پھر سنجیدگی سے – میں اپنے ساس کا سکھاوا سمجھتی، نندوں کی پڑھائی ہوئی پٹیاں سمجھتی ، حالانکہ وہ میری ضدی طبیعت پر دو حرف بھیج چکی تھی
وقت اپنی چال چلتا گیا – سسر وفات پا گئے ،دیور باہرپڑھنے چلا گیا – چھوٹی نند بیاہی گئی – میرا مزاج اور روش وہی تھی لیکن ساس اب علیل رہنے لگی تھی – عمران کا سختی سے حکم تھا گھر کی طرف توجہ دوں- اب میں مارے باندھے کام کر لیا کرتی، دو بچوں کے باوجود میری خوبصورتی قائم تھی میں اپنی چھوٹی بہنوں سے کم عمر لگتی- ایک روز میں بچوں کی شاپنگ کرنے گئی تو نہ جانے دل میں کیا آیا ایک جوڑا ساس کے لیے بھی خرید لیا
شال پسند آئی وہ بھی ان کے لیے خرید لی – نہ جانے کیوں گھر آ کر ان کو جوڑا اور شال دکھائی – پہلے وہ بے یقینی سے دیکھتی رہی – پھر سر پر ہاتھ پھیر کر دعا دی ، نہ جانے کیوں پہلی بار میرا دل سخت رقیق ہو گیا- شاید انہوں نے کبھی روایتی ساس بن کر نہیں دکھایا تھا   میں ان کے لیے پرہیزی کھانا بنانے لگی ، ایسا اب میں خود ہی کرتی تھی- بغیر عمران کے کہے- ایک روز اچانک ان کی طبیعت خراب ہو گئی – انہیں ہسپتال لے جانا پڑا
سیریس حالت تھی ،سب پریشان میں بے حس اور لا تعلق – عمران نے کہا امی مجھے یاد کر رہی ہیں- میں ہاسپٹل گئی، ہم دونوں کمرے میں تنہا تھی- انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے پاس بٹھایا – زندگی میں پہلی بار ہم دونوں یوں فرصت سے بیٹھے تھے – امی آپ سوپ پی لیں ، میں انہیں سوپ پلانا چاہتی تھی – انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا، وہ کچھ کہنا چاہتی تھی
ان کے تاثرات بتاتے تھے میں مجبوری میں ہمہ تن گوش ہو گئی – میری شادی ہوئی تو میرا واسطہ روایتی سسرال سے پڑا- اب اپنی مظلومیت کی داستان سنائیں گی میں نے بیزاری سے سوچا – سخت بد مزاج بلکہ کسی حد تک ظالم ساس کو میرا اوڑھنا تک پسند نہ تھا – میک اپ کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا – میں سردی گرمی لیلن کے دو جوڑوں میں گزارا کرتی – ساس سالن خود بناتی اپنی مرضی سے نکال کر دیتی –

کبھی بوٹی ڈالنا بھول جاتی کبھی پانی والا سالن میرا مقدر بنتا ،کبھی میرے حصے کی روٹی ختم ہو جاتی – شوہر اچھے تھے ،مگر اپنے کمرے تک – سب کہتے ہیں میں جلتے توے پر زندگی گزار رہی ہوں- ہر وقت لڑائی جھگڑا ،روک ٹوک ، میرے دل میں ساس نندوں کے لیے بیزاری تھی اور نفرت شوہر کے لیے – میں بوریت سے باتیں سن رہی تھی میری ساس آہستہ آہستہ بول رہی تھی
آنکھوں میں بے رنگ پانی تھا – آخر یہ مشکل بلکہ بہت مشکل وقت گزر گیا ، کیسے گزرا ؟ یہ صرف میں جانتی ہوں- پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں ایسی ساس نہیں بنوں گی- رشتے اچھے برے نہیں ہوتے ہمارے رویے انہیں اچھا یا برا بنا دیتے ہیں- اس لیے فیصلہ کیا کہ میں ایسی ساس نہیں بنوں گی- ساس کے وفات کے بعد بھی میرے دل سے ان کے لیے نفرت اور گلے ختم نہ ہوئے تھے
میں نے سوچا کیوں بیٹے اور بہو کی زندگی کے اچھے دن اپنے حسد اور جلانے کی نظر کروں ؟میں شاید اچھی ساس نہ بھی بن سکوں مگر اچھی انسان تو بن سکتی ہوں نا – میں نے اپنی بیٹیوں کو بھی گھریلو سازشوں سے دور رکھا تھا – میں یہ چاہتی تھی کہ ان کے ذہن پراگندہ نہ ہوں – آج میرے بچے اپنے گھروں میں خوش اور مطمئن ہیں- میرا لحاظ کرتے ہیں، احترام کرتے ہیں
مجھے یقین ہے کہ مرنے کے بعد مجھے اچھے الفاظ میں یاد رکھیں گے – میری ساس کا سانس پھولنے لگا، میں نے پانی پلایا ،اور کمر سہلائی- کافی دیر بیٹھنے کے بعد میں واپس آ گئی – نہ جانے میرا دل کیوں بوجھل تھا – شاید مجھے آج اپنی زیادتیوں کا احساس ہونے لگا – بعض اوقات برے لوگوں کو اچھے مل جاتے ہیں جو ان کو بدل دیتے ہیں
اسی طرح بہت اچھے لوگوں کو برے لوگ مل جاتے ہیں جیسے میری ساس ایک مہربان عورت تھی اور میں نامہربان بہو- ساس کی باتوں نے میرے دل پر اثر ڈالا تھا – میں روز ان کا کمرہ صاف کروات کپڑے دھلوا کر رکھتی – اب میں ان کا بہت خیال رکھوں گی- یہ بات میں روز تہیہ کرتی – ان کے مثبت رویے نے میرا دل بدل دیا تھا – میں بہت سی لڑکیوں کے مقابلے میں خوش اور مطمئن تھی
تو اس کا سبب میری ہوشیاری نہیں بلکہ ان کا غیر روایتی رویہ تھا – چوتھے دن پتہ چلا ان کا انتقال ہو گیا ہے – میں بہت روئی تڑپی – ان کی محبتوں کا احساس ہو گیا تھا یا اپنے پچھتاوے مار رہے تھے – سب کہتے تھے ایسی بہو کبھی نہیں دیکھی بیٹیوں جیسی محبت کرتی تھی – نند رو رہی تھی اور مجھ سے دور دور تھی- ساتھ والی آنٹی نے مجھے دلاسہ دیا- مرحومہ تمہیں بڑی دعائیں دیتی تھیں
سدا سہاگن رہنے کی ، تندرستی کی، خوشیوں کی ،تم نے جو سوٹ انہیں گفٹ کیا تھا وہ پہن کر میرے پوتے کے عقیقے پر ائی تھی- نہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھی – میں برستی انکھوں سے ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی- جو دھندلا رہا تھا – میرے سسرالی بے قصور تھے شاید یہ خون اور فطرت کا اثر تھا ،جو مجھ میں دادی اور پھوپھو کی طرف سے آ یا تھا – جن پر میری ماں کی خدمت اور اچھائی کا اثر نہ ہوتا تھا
اے کاش ! اگر یہ وقت نہ گزرا ہوتا تو شاید تلافی کی صورت ممکن تھی- میں اچھی بہو نہیں بن سکی یہ حقیقت ہے مگر اچھی ساس ضرور بن سکتی تھی کبھی بھی انے والی لڑکی کے لیے یہ میرا فیصلہ تھا


Urdu stories

سبق

 

شائستہ بیگم کا ہاتھ تیزی سے چل رہا تھا خستہ خستہ پراٹھے اترتے جا رہے تھے، اور پاس بیٹھے ان کے تینوں بیٹھے ہاتھ صاف کیے جا رہے تھے- توے پر سے ایک کے بعد ایک پراٹھا آ رہا تھا- اوپر سے فاخر حاشر اور نادر کے پاس پڑی ہانڈی میں سے ایک کے بعد ایک پکوڑا غائب ہوتا جا رہا تھا -اچانک خیال انے پر مڑ کر ہانڈی دیکھتے ہوئے مجبور ہوئی تھی
شرم نہیں ائی ماں کے لیے خالی کڑھی چھوڑتے ہوئے – مجھے ایک بھی پکوڑا نہیں ملا – اور مما جی کہہ کر تینوں بولے کڑی پکوڑا اور پراٹھے اپ کے ہاتھ کے ہوں تو چھوڑتا کون ہے- ارے نہیں یار، میری مما تو کچھ بھی پکائیں کمال کر دیتی ہیں فاخر مکھن لگا رہا تھا- شائستہ بیگم کا موڈ بحال ہوا یہ حقیقت تھی کہ ان کے میکے سے لے کر سسرال تک ان کے طریقے اور کھانے پکانے کا سبھی معترف تھے
مما جی نانو کی مس کال آگئی ہے- ہاتھ فون اٹھاتا ہوا نادر ماں کی طرف لپکا -انہوں نے نمبر ملا کر ہینڈ فری لگا لی یہ روزانہ کا مشغلہ تھا- اس وقت فون کرنا ،اج اتوار کی وجہ سے وہ لیٹ ہوئی تھی ،تو اماں نے مس کال دے دی تھی- لو جی اماں کیا ہو گیا ہے اپ جیسی نرم مزاج ساس تو میں نے دیکھی نہیں- اج میں بچوں کو لے کر اپ کی طرف ا رہی تھی، اور اپ کی بہو نے گھر چھوڑنے کی تیاری بھی کر لی ،چلو اچھا جانے دیں میں آ رہی ہوں اپ کی طرف -خیال رکھیے، بہو بیٹے کو سنا کر بھیجنا کہ بیٹیوں کی وجہ سے کھانا مل جاتا ہے ورنہ تم لوگ تو بھوکا مار دو
شائستہ بیگم کا مصالحہ راؤنڈ شروع ہو چکا تھا وہ ڈکٹیشن دے رہی تھی -ان کی اماں کے ساتھ ساتھ پاس بیٹھے تینوں بیٹے بھی یہی سن رہے تھے اور سر بھی دھن رہے تھے – بچپن سے لے کر اج تک انہوں نے یہی دیکھا تھا اب تو خیر دو کی جاب بھی ہو گئی تھی- اور جوانی پار کیے بھی اب کافی وقت گزر چکا تھا – جبکہ نادر یونیورسٹی میں تھا -جوانی میں بیوہ ہو کر جس طرح مردانہ وار حالات کا مقابلہ کر کے انہوں نے بچوں کو قابل بنایا تھا
وہ قابل تعریف تھا- اس بات کو سراہنے والوں کی کمی بھی نہ تھی – لیکن اس مشقت سے ان کے اندر جو کمی پیدا ہو گئی تھی وہ اس سے بے خبر تھی- یا پھر بے خبر رہنا چاہتی تھی – جیسے ہی یہ حکم ملا کہ ہم نانو کی طرف جا رہے ہیں گاڑی باہر نکالو تو وو تینوں راضی بھر چل دئیے
بچپن سے ماں کے اچانک پروگرام بنتے دیکھتے آ رہے تھے اور ایسے میں نانو کے گھر جا کر وہ بہت انجوائے بھی کرتے تھے – نصرت بیگم تینوں بیٹیوں اور دو بیٹوں کے حصار میں نڈھال سی لیٹی ہوئی تھی تیسرا بیٹا اپنی نئی نویری دلہن کو میکے چھوڑنے گیا ہوا تھا -دونوں بہوئیں کچن میں جتی ہوئی تھیں –
جبکہ ان کے بچے پھوپھیوں کے بے دام غلام بنے خدمت کر رہے تھے اور پھوپھیوں کے بچے ماؤں اور ماموں کی گفتگو سننے میں مصروف تھے- ارے بس احمد، میں بھی اگر تمہاری بیویوں جیسی ہوتی تو کہاں کچھ بچنا تھا. نہ بیٹے لائق ہوتے نہ گھر بار کا کچھ بچتا یہ تو مجھے پتہ ہے کہ عاشر کے پاپا کے بعد کیسے زندگی گزاری ہے- وہ ترب کا پتہ پھینک کر رونے میں مصروف ہوئیں، باقی دونوں بہنوں نے اور ماں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا
نتیجتا بھائی دائیں بائیں بیٹھ کر دلاسے دینے لگے تیسرا آ کر پیچھے کھڑا ہوا -اور گردن میں بازو ڈال لیا – اسجد تم تو سسرال گئے ہوئے تھے ایک دم سے استفسار ہوا – وہ باجی مجھے اماں نے بتا دیا تھا اپ لوگ آ رہے ہیں- تو میں ندا کو دروازے سے ہی اندر کر کے واپس لوٹ آیا- ڈائنیں ہیں پوری، اپنے علاوہ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتی
اپنے بھائیوں کا بھی نہیں سوچا، کیا پتہ اسجد اور ندا کو ہمارے والے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے، مگر دیکھا وہی چالیں شروع ہو گئیں ماں بیٹیوں کی ، وہ دیورانی جیٹھانی کچن میں کھانا بناتے ہوئے جلے دل کے پھپھولے پھول رہی تھی- بھابی سچ میں, میں تو اماں پر حیران ہوں- اچھی بھلی ہوتی ہیں کھاتی پیتی خوش باش تندرست- جیسے ہی بیٹیاں آتی ہیں کمزور اور نڈھال سی ہو جاتی ہیں- مجھے تو 15 سال ہو گئے ان کے یہی ڈرامے دیکھتے ہوئے
ویسے بھی تم نے سنا ہوگا انسان جیسا سنتا اور سوچتا ہو ویسا ہی محسوس کرنے لگتا ہے- اماں بھی بیٹیوں کے انے پر ان کے منہ سے یہی کچھ سن کر خود کو کمزور محسوس کرنے لگتی ہیں- اچھا بھابی ویسے اماں ہیں تو بہت اچھی، لیکن باجی شائستہ ان کی نیگٹیویٹی پالش کرتی رہتی ہیں اور ایسا پھر وہ بیہیو کر جاتی ہیں کہ انہیں بہو کا خیال ہی نہیں رہتا
اپ نے کبھی نوٹ کیا جب دو دن بھی باجی کا فون نہ ائے، تو وہ کتنا خوش ہوتی ہیں ہمارے ساتھ – ہاں یہ تو ہے یہی ہماری نند ہے جس نے ہماری زندگی الٹ پلٹ کر دی ہے- نہ ان کو اپنی عاقبت کی فکر ہے نہ ماں کی- ان کا بڑھاپہ اور اخرت دونوں داؤ پر لگائے ہوئے ہیں- بڑھاپے میں انسان تو بچہ بن جاتا ہے قصور ان کا ہے جو جوان ہے
اور اپنے بھائیوں کو سکھاتی رہتی ہیں- سچی بھابھی ہماری نندوں کی خوش قسمتی میں تو کوئی شک نہیں بھائی بھی اتنا پیار کرتے ہیں- اسجد کو دیکھو سسرال کی پہلی دعوت ہی چھوڑ آیا ہے- مگر پھر بھی کسی کو قدر نہیں – ان کو بھی ندا کے خلاف بھڑکا رہی ہیں- حنا کچن کی کھڑکی میں سے ڈرائنگ روم میں تانکا جھانکی کر رہی تھی سب سے زیادہ شائستہ باجی ہی اسجد کو لپٹا لپٹا کر رو رہی ہیں
اپنے بیوہ ہونے کو ڈھال بنا رکھا ہے اس عورت نے، جب دیکھو اسی بات کو کیش کرا کر ہمارے گھر کا سکون برباد کر دیتی ہے- شوہر کے مرنے کے بعد اپنے گھر کی بھی حکمران ہے ،اور دوسروں کے گھروں پر بھی حکومت کرتی ہے- جی بھابھی، ان کو حکمرانی کی ایسی لت لگی ہے کہ ہر جگہ عقل کل بنی رہتی ہیں، اس سے تو بہتر ہے کہ شادی ہی کر لیتی- بڑی خالہ مما چلو چلیں ہم اج کے بعد کبھی نانو کے گھر نہیں ائیں گے
جویریہ ایسے چیخ چیخ کر رو رہی تھی کہ اب جان نکلی کہ تب، بیٹا ہوا کیا ہے؟ سب لوگ جاننے کے لیے تڑپ رہے تھے، گھنٹہ بھر سے بڑی ممانی اور چھوٹی ممانی کچن میں… وہ ہچکیوں سے رو رہی تھیں، اب تو ان دونوں کی حالت خراب ہو گئی، سب سے پہلے تو وہ نندوں کے سامنے ہی گڑگڑائیں- کہیں انہیں گھروں سے باہر نہ نکلوا دیں – شوہروں اور ساس کو تو بعد میں بھی منایا جا سکتا تھا

فاخر بیٹا تم سے ایک بات کرنی تھی- جی ماما آپ ہزار باتیں کریں- ابھی مہینے پہلے ہی تو اس کی شادی ہوئی تھی جویریہ کے ساتھ اور وہ بھی ماں کی پسند سے-بیٹا جویریہ کا ہاتھ بڑا کھلا ہے تو اس کو ذرا اونچ نیچ بتا دینا ابھی کل ہی اٹھ ہزار کا سوٹ ایک بار پہن کر کام والی کو اٹھا کر دے دیا ہے- مما نو مور پالیٹکس, وہ ایک دم سے کھڑا ہو گیا ساری زندگی اپ لوگوں کے ساتھ گیم کھیلتی رہی ہیں ,ہم اپ کی خاطر ممانیوں کی جاسوسیاں کرتے رہے اور اب اپ نے گھر میں بھی وہی کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے
ہماری ماں دوسروں کے گھروں میں اجارہ داری قائم رکھنے والی ہے ہمیں کہاں رہنے دیں گی اور وہی اپ نے شروع کر دیا آج کے بعد اپ جویریہ کی کوئی بات نہیں کریں گی بس چینج کریں خود کو ماما پلیز- وہ دھاڑ دھاڑ کر پاؤں مارتا ہوا باہر نکل گیا اور وہ نڈھال ہو کر صوفے پر گر گئی تھی- شائستہ کو میکے سے سسرال تک ہمیشہ سے سراہا گیا تھا- شادی سے پہلے والدین ان کی سمجھ بوجھ کے معترف تھے
شادی کے بعد شوہر نے بھی خوب تعریف کی ،کیونکہ طریقہ اور سلیقہ اور گھریلو شعور شائستہ پر ختم تھا -ان پر اللہ کا کوئی خاص کرم تھا جو ہر جگہ ان کو پذیرائی ملتی تھی- شادی کے اٹھ سال بعد بیوہ ہو جانا بلا شبہ بہت بڑا سانحہ تھا- مگر اس کے بعد جس طرح انہوں نے بیٹوں کو پروان چڑھایا اور گھر سنبھالا تھا اس پر ان کی پہلے سے بھی کئی گنا زیادہ تعریف کی گئی
جس سے ان میں عجیب رعونت کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ پیدا ہو گیا کہیں یہ مقام یہ تاریخ مجھ سے چھن نہ جائے- اس بات کے احساس نے انہیں ہر فیصلے میں مکمل ازادی اور اس کے ساتھ یہ حکمرانی کہ میں عقل کل ہوں اس کا احساس حد سے زیادہ بڑھا دیا تھا  –  ماں بھائیوں اور بہنوں کو اپنوں نے ہمیشہ یہ کہہ کر زیر بار رکھا تھا کہ مجھے باپ کے گھر سے بہت محبت ہے
اس لیے مشورے دیتی ہوں- حالانکہ وہ فیصلے سنایا کرتی تھی- اپنے گھر کے علاوہ بھابیوں کے گھر میں حکم چلانے کا نشہ ایسا تھا کہ انہوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ بیٹے کے پاس بیٹھے ہوئے،وہ فون پر ڈکٹیشن دیتی- بھابھیاں اکٹھی باتیں کرتی تو وہ کسی نہ کسی بیٹے کو باتیں سننے بھیج دیتی اب پتہ چلا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی فصل کو تباہ کر لیا ہے
وہ خداداد صلاحیتوں کی مالک تھی اپنی قابلیت کو منفی انداز میں استعمال نہ کرتی تو بیٹوں سمیت بھائیوں اور بہوؤں کے لیے بھی قابل تعریف نمونہ ہوتی- مگر یہ کیا ہو گیا اب اس کے اپنے بچے وہ سبق بھی پڑھا گئے تھے جو انہوں نے پڑھایا ہی نہیں تھا- وہ باب بھی یاد کر گئے تھے جو انہوں نے کبھی کھولا ہی نہیں تھا- وہ بت بنی بیٹھی تھی آنسو سفید دوپٹے میں گم ہو رہے تھے
تمہیں کیسے بتاؤں جویریہ مجھے تم تینوں سے بھی زیادہ پیاری ہے- میں نے تو بات برائے بات کی تھی، مگر مجھے پتہ چل گیا ہے کہ میں اپنے گھر میں اپنے بیٹوں کے ساتھ ان کی عائلی زندگی بھول کر بھی ڈسکس نہیں کر سکتی کوئی مشورہ نہیں دے سکتی- نہ اچھا نہ برا    جرم بڑا تھا، تو سزا بھی بڑی ہی ہونی تھی- پھر سے اعتماد بنانے میں وقت لگتا           ہے

Urdu stories

سمیرا بہو

 

سمیرا بہو جب آئی تھی آتے ہی چھا گئی تھی۔ نصیبن بوا نے سارے محلے کی بڑی کی سیٹ سنبھالی اور سمیرا بہو نے بہو ہونے کی ۔ سمیرا سب کی بہو تھی اوپر سےسگھڑ سیانی اتنی کہ ہر کوئی مشورہ لینے آتا۔ بہو کا میاں شہر کمانے نکلا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا- پھر محلے میں ہی چاٹ چنے کی ریڑھی لگائی۔ سمیرا بہو کے سلیقے کے سبب گھر کی گاڑی چلنے لگی۔ ہر دل عزیز سمیرا بہو آج نصرت بیگم کے ہاں تھی۔
نصرت کا اکلوتا بیٹا شہریار کل ہی لڑکی بھگا کر لایا تھا۔ ظاہر ہے کہ گھر سے بھاگی لڑکی اچھی تو نہیں تھی جو جشن منائے جاتے۔ نہ ہمدردی رکھنے والوں کی کمی تھی، نہ منہ میں بڑبڑانے والوں کی۔ نصرت بیگم جلد از جلد اس سے چھٹکارا چاہتی تھیں ۔ اس لڑکی سے ان کی نسل بڑھے، یہ انہیں کسی صورت قبول نہیں تھا۔ اندر ان کا بیٹا شیری ان کی منت سماجت کے بعد اب بیوی سے نجانے کون سے راز و نیاز کرنے میں مگن تھا۔
وہ لڑکی جس کا واپس جانا نہ شیری کو منظور تھا نہ یہ بھیانک قدم اٹھانے والی کو۔ دوسری طرف نصرت بیگم تھیں جنہیں وہ کسی بھی طرح قبول نہ تھی – طریقہ کوئی بھی ہو اسے اس گھر میں نہیں رکھنا تھا۔ سگھڑ سیانی سمیرا بہو نے گھر میں قدم رکھا تو نصرت بیگم کو بڑی ڈھارس ملی ۔ ایک وہ ہی تو تھی جو دل کا بوجھ ہلکا کرتی۔ وہ اٹھ کر پہلے تو گلے لگ کر خوب روئیں۔ برباد کر دیا شیری نے ۔
ہائے وائے کلیجے پر ہاتھ پڑنے رونے دھونے کا سلسلہ تھما تو نصرت بیگم نے سمیرا بہو کی طرف دیکھا۔ اب تم ہی بتاؤ، آخر کیا کروں میں ، نکاح کر کے لایا ہے اس بدبخت کو ، پتا نہیں کیسا گھرانہ ؟جیسی گھر سے نکلنے والی ہے۔ ویسا ہی بدبختوں کا گھرانہ بھی ہوگا ۔ ان کی تشویش کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ نہ بال بنائے تھے نہ رات سے کھانا کھایا تھا۔
نقاہت الگ سے ہو رہی تھی اور دل کا حال تو جو تھا سو تھا کوئی راستہ نکلے تو وہ ڈوبتے دل کی تسلی پائیں۔ شیری خدا کرے یہ سمجھ جائے یہ لڑکی ٹھیک نہیں ہے ان کے لیے میں کیسے سمجھاؤں آخر – وہ روہانسی ہو کر بول رہی تھیں ۔ جیسے اپنا درد کہہ کر خود کو خالی کردینا چاہتی ہوں اصل میں اب وہ تھیں بھی خالی ہاتھ, ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔
سمیرا بہو نے انہیں دل گرفتہ دیکھا تو بولی۔ ” کیوں دل برا کرتی ہیں آپا جی آپ ایسی عشق محبت والیاں بھی بھی گھر بنا پائی ہیں عشق وشق کا نشہ ہے۔ شیری جوان جہان ہے ایک دو مہینے میں اتر جائے گا عشق وشق کا نشہ – یہ مہندی جو لگا کے اندرگھسی ہے ناں اس کے اترنے ,پھیکا پڑنے سے پہلے ہی کان پکڑ کے باہر نکال دے گا۔ شیری مرد ذات ہے اس کا کیا اعتبار ۔
بڑی دیکھی ہیں اعتبار کرنے والیاں- ڈوبی ہی ہیں تیری نہیں ہیں آج تک- آپ بس تماشا دیکھیے چپ چاپ جو آپ چاہ رہی ہیں ہوگا تو وہی ناں – جھکے سر تیری قدموں میں نہ آبیٹھے تو نام بدل دینا سمیرا بہو کا ۔

اور آپا جی اب میں چائے کا پانی چڑھانے جارہی ہوں۔ منہ ہاتھ دھو ، بال سنوار لو ، روئیں آپ کے دشمن بڑی بہنوں کی طرح ہیں ہماری ، درمیان میں بھی مدد کی ضرورت پیش آئے تو سو بار حاضر ہوں۔ ایک آواز دے کر دیکھیں۔ میں فوراً آجاؤں گی – زرا دل اداس ہو تو ہمارے گھر چلی آئیں مل بیٹھ کے دل کا سارا غبار نکال لیا کریں گے –
سمیرا بہو نے دوپٹہ اچھی طرح لپیٹا اور کچن میں گھس گئیں۔ نصرت بیگم نے بال سنوارے منہ ہاتھ دھو کر خود کو پر سکون محسوس کیا اور کچھ سوچتے ہوئے گرم چائے لبوں سے لگا لی- سمیرا بہو سچی تھی حکمت عملی اور صبر سے کام لینا ہوگا ورنہ کچھ نہیں بچتا نہ ان کے گھرانے کی ناموس اور نہ وہ خود ۔ ایک اکلوتا بیٹا تھا سوچ سمجھ کر ہی چلنا ہوگا کیا ہوا جو یہ آئی ہے۔ چلے ہی جانا ہے اس نے میں کیوں دل برا کروں –
سمیرا کی باتوں میں دم تھا۔ ان کی جان میں جان آئی تھی ۔ کبھی ماں سے بھی بیٹے جدا ہوتے ہیں۔ گرم چائے کے کپ کو لبوں سے لگائے ساتھ ایک بسکٹ بھی انہوں نے اٹھا لیا۔ پھر مزید بسکٹ لے لیے , بھوک اور نقاہت سے برا حال تھا۔ اب کچھ توانائی بحال ہوئی تھی ۔ سمیرا بہو نے کچن سمیٹ دیا اور پاس آکر کہنے لگی ۔ ذرا اس کمینی کی بھی خبر لے کر آتی ہوں ۔ پتا تو چلے بھاگ کے آئی کہاں سے ہے کس خاندان کی ہے۔
سمیرا بہو سے ہی معلومات مل سکتی تھی وہ ہی اسے سمجھ کر انہیں اس کی کمزوریاں بتا سکتی تھی۔ ” ہاں ہاں تم ضرور جاؤ اندر بلکہ جا کر بیٹھو اس کے پاس میں ذرا آرام کر لوں بہت تھکن ہورہی ہے۔ پتا نہیں میری دوائیاں کہاں ہیں بی پی ہائی ہو رہا ہے۔ ابھی تو یہیں تھیں انہوں نے ادھر ادھر ہاتھ مارنا شروع کر دیئے تھے۔ اتنے میں سمیرا بہو نے دو کپ گرم چائے اور ساتھ میں بسکٹ نمکو وغیرہ لیے اور ہلکی دستک کے بعد اندر کمرے میں چلی گئی۔ وہ اسے جاتا دیکھے گئیں۔
کیسی اولا د ملی تھی کہ دل کا چین ہی لٹ چکا تھا۔ نیند کہاں سے آنی تھی کھڑکی پار مغرب کے بعد کا وقت دکھائی دیا تھا – پریشانی میں رات دن کا بھی ہوش نہیں رہا تھا ۔ تو سورج کی خبر کیسے رہنا تھی۔ اندر کمرے کے اداس ماحول میں مہندی کی خوشبو رچی بسی تھی۔ اس نے ایک بہت ہی ہلکے سے کام والا سوٹ پہن رکھا تھا۔گہری لمبی آنکھیں ، دیلی پتلی بیس اکیس کے درمیان , لگتی تو بھولی بھالی تھی ، پر اندر سے ایسی گھنی ۔
لعنت ہے تیری جوانی پر پتا نہیں کس کی بہن اور بیٹی ہے۔ سمیرا بہو نے سوچا اور قدم اندر بڑھا دیئے۔ آجا ئیں سمیرا آیا ۔ شیری کی ہلکی سی آواز میں سرشاری بھی تھی۔یہ ہماری سمیرا آیا ہیں محلے کی سب سے سمجھ دار آپا-ان کے مشوروں اور محبت کا تو میں بھی قائل ہوں – ان ہی سے بہن کا رشتہ بنا لو آج سے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم پریشان مت ہو شانزے ۔ تو یہ شانزے ہے۔
سمیرا بہو نے سوچا اور کپ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر دھر دیے۔ لو بھئی اب چائے وغیرہ تو پیو اور شیری کی باتوں میں تو بالکل مت آنا۔ اپنے محلے اپنے گھروں میں کیسی سمجھ داری اپنے گھر میں تو محبت اپنائیت ہوتی ہے ۔ بس خیال ہوتا ہے دکھ سکھ کا۔ ہلکا سا میک اپ ہی کر لیتیں سوٹ تو بہت پیارا ہے اور ہو خود بھی پیاری۔
اب جو ہوا سو ہوا تم دل چھوٹا مت کرنا ,میں ہوں ناں تم دونوں کی آپا اور آپا نصرت وہ تو ایسی ہی باتیں کریں گی۔ اتنی پیاری بہو ملی ہے اور منہ بنا کے بیٹھی ہیں چلو تھوڑا میک اپ کر دوں ۔ کچھ ہے پاس تمہارے کہ میں لے آؤں گھر سے ” اتنا دوستانہ اور ایسی حمایت شانزے کو بغیر کچھ کہے پہلی بار ملی تھی۔ ” آپ بہت اچھی ہیں آپا ! ” میں اچھی کہاں ہوں تم پیاری ہی اتنی ہو۔
” شانزے نے سکھ کی پہلی سانس لی شیری تیار ہو کر پیزا لینے نکل گیا اور جاتے جاتے ہزار کا نوٹ سمیرا بہو کو تھما دیا ۔ لیں آپا جی ! یہ بچوں کے لیے مٹھائی لے لیجیے گا اور ہمارے لیے دعا کریں سب ٹھیک ہو جائے ۔ شیری نے شانزے کو ذرا پرسکون پایا تھا۔ سمیرا آپا امی کو بھی سمجھا ہی لیں گی۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا میں شانزے کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا تھا اور فریحہ سے شادی بھی کر نہیں سکتا ۔
شہری نے سوچا ,فریحہ کو دماغ سے جھٹکتا شانزے کی مہک دل میں لیے وہ پورچ سے گاڑی نکالنے لگا تھا ۔ واپسی پر سمیرا بہو نے نصرت بیگم کے کمرے کا چکر پھر سے لگانے کا ارادہ کیا پھر ان کے آرام میں خلل کے خیال سے چپکے سے لوٹنے لگی تھی کہ نصرت بیگم نے کروٹ بدلی اورسمیرا کو واپس بلا لیا۔ ایسے نہ جاؤ بہو،دیکھو کچن میں مٹن بریانی کی پتیلی پڑی ہے۔ ساتھ لے جاؤ اور فریج میں کچھ فروٹ ہے۔
وہ بھی نکال لو بچے کھا لیں گے، میں صبح چپاتی کھاؤں گی ۔ سمیرا نے مٹن بریانی اور پھل شوپر میں ڈالے اور گھر کی راہ لی ایک نیلے نوٹ کے ساتھ سبز ٹوٹ بھی تھا جو شانزے نے زبردستی اس کی مٹھی میں دیا تھا۔ جنگیں تو اس گھر میں ہونی ہی تھیں کبھی نصرت بیگم منہ پر کپڑا ڈالے رونے لگتیں کبھی شانزے کے دل پر ہاتھ پڑتا۔ دونوں کو سمجھانے کی ذمہ داری سمیرا بہو نے ہی سنبھالی تھی ۔

دونوں طرف محاذ گرم خوب تھا سمیرا بہو کی مٹھی بھی ٹھیک ٹھاک گرم رہی تھی ۔ ۔ “اے ناس پیٹی بڑھیا کیسے حلق پھاڑ کے چیختی ہے۔ بیٹا قبر میں لے کے جائے گی۔ شادی کرنی ہی تھی کرلی اب کیا چیخم دھاڑ- تو بہ تو یہ ایسی گھن گرج تو جوانوں کی بھی نہ ہووے ہے شہری محبت کرتا ہے, لاڈ کا ہے کو نہ اٹھائے دل کی مہارانی کے – شانزے نے تو سارے بل کس نکال دیے بڑھیا کے –
سمیرا بہو شانزے میں ایک سے ایک نئی امنگ جگاتی ۔ لڑائی کا جواب دینے کے نئے نئے گر سکھاتی۔ شانزے، نصرت بیگم کی ایک ایک کمزوری سے واقف ہو چکی تھی ۔ ” سمیرا بہو واقعی سمجھ دار ہے شانزے سوچتی پھر مسکرا دیتی۔ ادھر نصرت بیگم نے بھی ہتھیاروں کی کوئی کم کھیپ تیار نہیں کر رکھی تھی۔
وہ بھی بیٹے کے سامنے وہ مکر کرنے لگی تھیں کہ خود شیری کو یقین کرنا مشکل ہو جاتا کہ وہ سچی ہیں کہ جھوٹ کہہ رہی ہیں ، جھوٹ موٹ کے موٹے آنسو بھی سمیرا بہو نے ہی انہیں بہانا سکھائے تھے۔ شیری کا جینا دوبھر ہو چکا تھا۔ دل کی خوشی دل کا درد بن چکی تھی ، کام والیاں کام ختم کرنے کے بجائے مزے لے لے کر باتیں بنا تیں ایک کی پانچ لگا کر مکار بڑھیا اور چالاک بہو کے قصے بیان کرتیں ۔
بدنامیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلا تھا۔ کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ سمیرا بہو نے وہ جنگ چھیڑ دی تھی کہ گھر کا چین رخصت ہوئے مہینوں گزر گئے ۔ ماں کو مناتا تو شانزے ناراض اور دونوں مل بیٹھنے کا سوچتی بھی نہ تھیں اور پھر سمیرا بہو کو یقین کامل تھا کہ اب وہ دونوں ایک بھی نہیں ہو سکتی تھیں۔ اس کے بچے مہنگا فروٹ خوب ڈٹ کر کھاتے تھے۔
فروزن فوڈز کے ذائقے سے الگ آشنا ہوئے تھے۔ دن یوں گزرتے ہی گئے-سمیرا بہو اپنے میکے بڑے بھائی کے ہاں گئی ۔ چھ سالوں بعد رب نے لڑ کا دیا تھا۔ سمیرا نے بھی کھلا خرچا لیا اور گوجرانوالہ روانہ ہو گئی۔ واپسی کا سفر کچھ دن طویل ہوا۔ اتنا طویل کہ پیچھے اس کی کایا ہی پلٹ گئی ۔ شانزے کے ہاں میلاد تھا۔ اسے بھی دعوت دی گئی گھر کی بندی تھی ۔
جلد ہی چلی گئی چکن پلاؤ ، پریانی ، قورمے کی دیگیں ، خوشبو ہر طرف دلوں کو للچا رہی تھی۔ نصرت آپا کی لاڈلی, شانزے کی بڑی بہن اس کا حق سب سے زیادہ تھا پر کون جانتا تھا کہ اب نظر انداز ہونے کا موسم تھا پتا نہیں کب دونوں مل بیٹھیں اور یہ مشوروں کی مماثلت والا بھید کھلا۔
شانزے گھر سے بھاگی ہے کہ بیاہی گئی یہ تو ذاتی مسائل تھے ان کے ،اور درمیان میں کیوں کودی یہ سمیرا بہو – پل میں وہ اس عزت سے محروم ہوئی ۔ جو سالوں سے بنی ہوئی تھی- نہ شانزے نے اسے بیٹھنے کا کہا نہ نصرت بیگم نے اور کسی بات پر اتفاق ہوا ہو کہ نہ ہوا ہو پر سمیرا بہو پر اتفاق ضرور کر لیا گیا تھا۔ آج کا دن پورا دن جو یہاں بیٹھے بیٹھے گزر گیا تھا نہ کچھ ہاتھ آیا نہ چاول کا لقمہ منہ میں گیا۔ کہیں سے کسی نے چاول کا چھوٹا سا شا پر اسے بھی لا تھمایا۔
لو بھی سمیرا بہو!”چلو چلو ” دریاں سمیٹ لو جلدی ورنہ خراب ہو جائیں گی۔ سب سے پچھے بیٹھی سمیرا بہو چپ چاپ اڑتے شاپروں کو دیکھنے لگی کہ اس جیسے لوگ بھی خالی شاپروں کی طرح ہوتے ہیں جو نہ اڑتے اچھے لگتے ہیں نہ مٹی میں دبے ہوئے۔ وقتی چمک دمک کے بعد کوڑے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ آج اس نے بھی خود کو کوڑے سے کم خیال نہیں کیا تھا۔

Urdu stories

معزور نسل

کیا یہ ایک سُلگتا ہوا اور دُکھ بَھرا سَچ نہیں ہے جو اس معاشرے کے تقریباً ہر گھر میں پَنپ رہا ہے؟
معذوری !
لڑکا یا لڑکی
جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکے ہیں، صحت قابل رشک ہے مگر گھر میں ایسے رہتے ہیں جیسے خصوصی افراد۔۔۔
صبح اٹھیں گے، بستر ویسے ہی بے ترتیب چھوڑ دیں گے۔۔۔ کہ ماں آ کر یہ درست کر دے گی۔
کپڑے تبدیل کریں گے۔۔۔
جہاں اتارے وہیں یا کسی کونے کھدرے میں رکھ چھوڑیں گے۔۔۔
ماں آئے گی، اٹھائے گی، دھوئے گی، استری کرے گی اور واپس ترتیب کے ساتھ ان کی الماری میں رکھ دے گی۔
کھانا انہیں تیار ملنا چاہیئے
کھانے سے پہلے یا کھانا کھا چکنے کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ پلیٹیں اٹھانا یا گلاس واپس رکھ چھوڑنا بالکل بھی نہیں۔۔ماں آئے گی اور وہی یہ سارے کام کرے گی۔
اسکول، کالج یا یونیورسٹی جائیں گے
واپس لوٹیں گے تو سونے کے لیے
اسنیپ چیٹ، واٹس اپ یا ٹِک ٹاک پر مستی کے لیے۔۔۔ ٹویٹر، انسٹاگرام پر وقت گزاری کے لیے یا پھر اپنے پنسدیدہ سیریل اور ڈرامے دیکھنے کے لیے
کھانا وہیں بیٹھے منگوائیں گے
فقط لقمے کے لیے ہاتھ بڑھانا یا اسے نِگلنا ان کا کام ہو گا
اس کے لیے بھی ان کا شکریہ
کیونکہ اس کے بعد انہوں نے ٹی وی یا لیپ ٹاپ یا آئی پیڈ پر دوبارہ جہاد کے لیے واپس جانا ہو گا
کبھی کبھار یہ اپنے فارغ وقت میں گھر کے دوسرے افراد کے ساتھ بیٹھنے کی مہربانی بھی کر دیتے ہیں
مگر کیا مجال ہے کہ اس دوران یہ اپنے موبائل کی اسکرین سے نظریں ہٹائیں
یہ اپنے اُن پیاروں کے نزدیک رہنا چاہتے ہیں جنہوں نے ابھی ابھی کوئی کمنٹ کیا ہے
قیمتی اسٹیٹس اپلوڈ کیا ہے
یا کوئی تصویر بھیجی ہے
فوراً کمنٹ کر کے ان کی دلجوئی کرنا ان کا اولین فرض ہوتا ہے۔۔۔
اور یہ والے صاحبان— گھر میں بَھلے کوئی انتہائی چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو، وہ کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہوتے۔
اپنی جگہ پر گَند مَچا کر اُٹھ جاتے ہیں
کھانا پسند نہ آئے تو ناراض ہونا اپنا فرض اولیں سمجھتے ہیں
گھر میں کوئی قابلِ مرمت کام یا قابلِ تبدیل چیز دیکھ بھی لیں تو انجان بن کر گزر جاتے ہیں
کیونکہ یہ ذمہ داری تو باپ کی ہوتی ہے
صفائی ستھرائی یا ترتیب ماں کی ذمہ داری ہوتی ہے

بَدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ یہ دِلسوز مَنظر تقریباً ہر گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

اِن سب وجوہات کی بِنا پر ہم بَرملا یہ کہہ سکتے کہ تمام اعضاء صیح سلامت ہونے کے باوجود بھی ہم ایک معذور نَسل پروان چڑھا رہے ہیں
جی ہاں بالکل ایک معذور نَسل
خیر سے ہماری تیار نسل کے تصرفات دیکھیے تو لگتا ہے یہ اس گھر میں مہمان ہیں۔

نہ کوئی تعاون کرنے والے
اور نہ ہی کسی کام میں مدد کرنے والے 
نہ کوئی اپنے اطراف کی کوئی ذمہ داری اٹھانے والے
پرائمری اسکول سے لے کر کالج یونیورسٹی تک
بلکہ نوکری لگ جانے کے بعد بھی
وہ اپنے والدین کے گھر میں مہمان بن کر رہتے ہیں

وہ کسی ذمہ داری کو نہیں سمجھتے ما سوائے جیب خرچ لینے اور ماں باپ پر رُعب ڈالنے کے

ماں باپ دونوں گھر کی ذمہ داریوں اور مُنہ زور اولاد کے رُعبُ و دَبدبے کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں

بَھلے عُمر جتنی ڈھلتی جائے اور قویٰ کتنے ہی کمزور کیوں نہ پڑتے جائیں۔

کیونکہ وہ خود ہی تو نہیں چاہتے کہ اولاد کو ان کے ہوتے ہوئے کوئی تکلیف اٹھانا پڑے

اور اس سب کے بعد اس اولاد نے سیکھا کیا ہے؟

معذوری

دوسروں پر توکل اور بھروسہ

کیونکہ آپ نے ان کی بنیاد ہی ایسے رکھ دی ہے

اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے

تو آپ کی اس محبت کے نتائج کیسے نکلنے ہیں؟

پیارے والدین اور سرپرست صاحبان

اپنے بیٹے یا بیٹی کو گھر میں کچھ ذمہ داریاں اٹھانے کی عادت ڈالیے

ان کی شخصیت کی تعمیر اور سماجی طور پر ان کو سرگرم کیجئے

ذمہ داری لینا انہیں مضبوط بناتا ہے اور آنے والی چیزوں کا سامنا کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔

جب کہ ان کا ہر پل ہر گھڑی ماں باپ اور دوسروں پر انحصار انہیں سست، کمزور اور کمتر بناتا ہے۔

ماں اور باپ اگر اپنے بیٹے اور بیٹی کو اپنے گھر کی ذمہ داری اور حالات کا سامنا کرنا نہیں سکھائیں گے تو ان کی زندگی آنے والے دنوں میں بَد سے بَدتَر ہوتی جائے گی جس کے صرف اور صرف آپ ذمہ دار ہوں گے۔

یاد رکھیے

دنیا کے دیئے ہوئے سبق آپ کی توقع سے زیادہ چونکا دینے والے، بے رحم اور زیادہ ظالم ہوں گے۔

اپنے بیٹے یا بیٹی کو اپنے گھر میں مہمان نہ بنائیں

بلکہ انہیں آہستہ آہستہ روزمرہ کے گھریلو معمولات کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے کا پابند کیجئے۔۔۔

Urdu stories

انقلاب 

 

معصومہ کی نگاہیں گھڑی کی سوئیوں پر ٹکی ہوئی تھیں- جیسے ہی 11 بجے- اس نے منتظر نگاہوں سے صحن سے ملحق بالائی منزل سے آتی ہوئی سیڑھیوں پر نگاہ ڈالی – زینا عبور کرتی حرا ایک ادا سے نیچے آ رہی تھی- ہشاش بشاش چہرہ پرسکون مسکان سجائے وہ نیچے آئی- کیسی ہیں بھابھی جاگ گئی آپ؟ معصومہ کو اس کا یہ سوال ایک انکھ نہ بھایا تھا
کیونکہ وہ تو صبح اذانوں کے وقت سے جاگی، گھر گھرستی کے کاموں میں الجھی ہوئی تھی- جبکہ حرا کی صبح اب ہوئی تھی اور پوری نیند لینے بعد وہ بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی-معصومہ اتنی تھکی ہوئی تھی کہ اس کا لب کھولنے کو بھی دل نہ چاہا اس لیے ہلکی سی آواز سے بولا ہاں میں تو کب کی جاگ گئی – حرا نے فریج کھولا – آٹا نکالا پیڑا بنایا – اور حیدر کے لیے ناشتہ تیار کیا
حیدر اتنی دیر میں نیچے آیا، اس کی گود میں عیشا تھی – ان کی اکلوتی اولاد- ایک سالہ عیشا مطمئن سی باپ کی گود میں تھی – تبھی حرا نے بے نیازی سے ناشتہ ٹیبل پر دھرا اور عیشا کو معصومہ کو پکڑاتے ہوئے بولی بھابھی عیشا کو پکڑ لیں ذرا ہم دونوں ناشتہ کر لیں – معصومہ حیرت سے اسے بس دیکھتی رہ گئی – کہنا چاہتی تھی کہ شدید تھکاوٹ کے بعد وہ بچوں کو سکول لینے جانے سے پہلے لیٹنا چاہتی ہے
اور تازہ دم ہونا چاہتی ہے- مگر ہمیشہ کی طرح اس کے خیالات دل میں رہ گئے- اور عیشا کو تھامتی ہوئی وہ کمرے میں آ گئی – عیشا کو کھلونے پکڑائے اورعیشا کھلونوں میں مگن ہو گئی ساتھ ہی بی بی کاٹ میں زینب سو رہی تھی- زینب پر نظر پڑتے ہی معصومہ کی انکھوں میں ممتا بھر آئی -معصومہ تین بچوں کی ماں تھی موسی سونیا اور چھوٹی زینب جو ابھی چند ماہ کی تھی – موسی اور سونیا دونوں سکول جاتے تھے
اس لیے معصومہ کو صبح سویرے ان کو سکول روانہ کرنے کی غرض سے جاگنا پڑتا تھا – معصومہ اور اسد دونوں میاں بیوی اس پانچ مرلے کے مکان میں تنہا رہتے تھے مگر ایک ماہ قبل اس چھوٹے کے بھائی حیدر کو بھی کراچی میں نوکری مل گئی تھی- اس لیے اب حیدر کو بھی یہاں مستقل رہائش کے لیے آنا تھا – یوں بھی اوپر کی منزل خالی تھی، اس لیے اسد نے مناسب سمجھا کہ اوپر کا پورشن بھائی کو رہنے کے لیے دے دیا جائے
وہاں ایک کمرہ اور اٹیچ باتھ اور کچن تھا مگر اس میں سامان نہ تھا- اس لیے اسد اور حیدر کی بیوی یعنی معصومہ اور حرا دونوں اکٹھے ہی نیچے والے پورشن میں موجود باورچی خانے کو کھانا پکانے کے لیے استعمال کر لیتی تھی- معصومہ کی اسد اور تین بچوں کے ساتھ پہلے ہی بہت ذمہ داری تھی- اس کا خیال تھا کہ حرا کے آنے سے کچھ سکون میسر ہوگا ،مگر حرا کے آنے سے نہ صرف ذہنی سکون جاتا رہا بلکہ جسمانی سکون بھی غارت ہو گیا
کام کے بعد جو تھوڑا وقت بچتا تھا کہ وہ اپنی کمر سیدھی کر لے- اب وہ حرا اور اس کی بیٹی عیشا کی خدمت گزاری میں گزر رہا تھا – معصومہ کا دل اس وقت خوب کرتا تھا جب ہفتے بھر کے گندے برتنوں کا ڈھیر معصومہ کو خود حرا کے کمرے سے جا کر لانا پڑتا تھا- پلیٹ میں بغیر ڈھکے چاول نہ جانے کب سے پڑے تھے روٹیوں کے ٹکڑے دوسری پلیٹ میں منہ چڑھا رہے تھے
کئی کپ جو چائے پینے کے بعد گندے پڑے تھے، معصومہ سارا دن برتن دھوتی رہتی اوپر سے نیچے کے چکر لگاتی- لیکن اسے بہت کوفت ہوتی جبکہ حرا اس معاملے میں بالکل لاپروا تھی- اسے اپنی اس بے حسی کی انتہا پر کوئی افسوس تک نہ تھا – سب سے زیادہ بری بات یہ تھی کہ حیدر بھی انکھ بند کیے بیوی کا غلام تھا- جبکہ اسد ہر معاملے میں معصومہ کو ڈانٹ دیا کرتا تھا -چاہے اس میں معصومہ کا قصور ہو یا نہ ہو
اسد کو معصومہ کی تذلیل کر کے دلی خوشی محسوس ہوتی تھی- جبکہ حیدر حرا کے سامنے بول نہ سکتا تھا – جیسا وہ کہتی ویسا ہی کرتا تھا – یوں لگتا تھا جیسے بےدام غلام ہو شوہر نہیں – روزانہ حرا کو نیچے آ کر صاف کچن ملتا تھا – برتن جو اس کے رات کے گندے پڑے ہوتے تھے، وہ معصومہ صاف کر چکی ہوتی تھی
ہر چیز ٹھکانے پر رکھی ہوتی تھی- تو پھر بھلا دو پراٹھے بنانے میں کیا دیر لگتی؟ ناشتہ کرا کے میاں کو رخصت کرتی اور دوبارہ اپنی بیٹی کو لے کر اوپر کے پورشن میں گم ہو جاتی – اس کی امد دوبارہ تب ہوتی جب دوپہر کا کھانا بن چکا ہوتا- اور معصومہ روٹیاں پکا رہی ہوتی تھی – وہ اس وقت حرا کچھ ایسا کرتی کہ بچی رونے لگ جاتی-پھر حرا آرام سے پکارتی, روٹی تو آپ بنا رہی ہیں
میرے لیے بھی بنا دیں- اب بھلا اس میں انکار کی تو کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی- حرا آرام سے گرم روٹی لیتی اور عشاء کو سامنے بٹھا کر کھانے لگتی- کھاتے ہی وہ دودھ پتی کی فرمائش کر دیتی- معصومہ کو خود بھی چائے کی طلب محسوس ہو رہی ہوتی تھی- اسی لیے دودھ برتن میں ڈال کر چولہے پر چڑھا دیتی- معصومہ کی سوچ میں شفافیت تھی
وہ سوچتی تھی کہ اپنے بچوں کے لیے پکا رہی ہوں تو دو روٹی اور چائے بنا دینے سے حرا اور حیدر کی کوئی فرق نہیں پڑتا – کھانے کے برتن عیشا کے دلیے کے برتن وہ بے نیازی سے یوں ہی چھوڑ جایا کرتی تھی- جس پر افسوس معصومہ کو بہت ہوتا تھا کہ حرا اتنی لاپرواہ کیوں ہے اور اسے احساس کیوں نہیں ہوتا
معصومہ نے اپنے بچوں کا جو سکول سے ابھی ابھی ائے تھے یونیفارم تبدیل کرایا منہ ہاتھ دھلایا اور کھانا لا کر کھلانے لگی- بچے تھے ان کا تقاضا ہوتا تھا کہ وہ ارام سے بیٹھ کر کارٹون دیکھتے جائیں اور ماں ان کو نوالے بنا کر منہ میں ڈالتی رہے – معصومہ بھی مان جاتی تھی اتنے میں زینب چیخ مار کر جاگ جاتی تھی
معصومہ کا کھانا وہیں رہ جاتا اور وہ زینب کے کانوں میں مصروف ہو جاتی تھی- وہاں سے فراغت ملتی تو بچوں کو ہوم ورک اور پھر ٹیسٹ ملے ہوتے جن کی تیاری کرانے میں خاصہ وقت گزر جاتا – اس تمام وقت میں حرا اپنے کمرے میں روپوش رہتی- جب مرد حضرات کے آنے کا وقت ہوتا تو بن سنور کر نیچے اتر اتی- بھابھی پنک لپ ا سٹک دیں میرون پینسل دے دیں
حرا کا انداز دو ٹوک ہوتا تھا- معصومہ صرف ٹھنڈی آہ بھرتی اور کہتی کہ وہاں پڑی ہے ٹیبل پر جا کر لے لو- معصومہ جانتی تھی کہ یہ پوچھنا محض دکھاوا ہے- اور اس کو سارے راستے معلوم ہیں- اور جب کہ معصومہ اتنی معصوم اور سادے سے حلیے میں پھر رہی ہوتی یہاں تک کہ اسد آ جاتا – حرا کا چھمک چھلو والا گٹ اپ اسد کی نگاہوں کی زد میں ضرور اتا
اور اسے ایسا لگتا کہ جیسے معصومہ کو اس کے آنے کی خوشی ہی نہیں ہوتی- زندگی کی گاڑی شاید یوں ہی چلتی رہتی لیکن باجی خالدہ ان کے گھر گئیں – باجی خالدہ ان دونوں کی اکلوتی نند تھی- جو لاہور میں رہتی تھی اب چند دنوں کے لیے بھابھیوں سے ملنے آ گئی – باجی خالدہ نے ایک دن معصومہ کی سرگرمیاں ملاحظہ کی- اور حرا کی بے نیازی بھی دیکھی اور سوچنے میں مصروف ہو گئی کہ آخر یہ کیسے چلے گا
باجی خالدہ کو معصومہ کا گدھوں کی طرح کام کرنا اچھا نہ لگا – ان کا دل مغموم ہو گیا – باجی خالدہ کو اپنا ماضی یاد آگیا- باجی خالدہ نے اپنے سسرال والوں کی جی جان سے خدمت کی لیکن اس کا انہیں کبھی صلہ نا ملا ، بلکہ ہمیشہ یہ تصور کیا جاتا کہ یہ ان کا فرض ہے- لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ حرا کی یہ چالاکیاں چلنے نہ دیں گی اور یوں معصومہ پر اتنا کاموں کا بوجھ، انہیں اپنے پچھلے وقت کی یاد دلاتے ہوئے مزید مغموم کر گیا
حرا نے یوں کیا کہ جیسے ہی باجی خالدہ کی آمد کا پتہ چلا اس نے ایسا اپنی بیماری کا رونا ڈالا کہ تمام کام خود بخود معصومہ کی ذمہ داری بن گئے- ویسے تو حرا نے لا تعلقی کی زندگی بسر کرنی ہی تھی مگر اس وقت تو انتہا ہو گئی کہ جب اس نے معصومہ کے سامنے اپنے اور بچی کے گندے کپڑوں کا ڈھیر لگا دیا کہ بھابھی اپ یہ کپڑے دھو دیں- میری تو حالت خراب ہے کمزوری اور نقاہت سے چکر آ رہے ہیں
خالدہ باجی چپ رہیں، وہ اس تماشے کو انتہا تک دیکھنا چاہتی تھی – معصومہ جو تھکن سے چور تھی – اور ابھی کچن کے کاموں سے فارغ ہوئی تھی- اب اطمینان سے آرام کرنے کا سوچ رہی تھی – بالکل ہونق چہرہ لیے دیورانی کو دیکھنے لگی – چاہتی تو صاف صاف بات کرتی میں تھکی ہوئی ہوں، مگر تھکن کا لفظ ہمیشہ کی طرح اس کے لفظ سے ادا نہ ہوا – اور وہ اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے گٹھری کھولنے لگی
اور کپڑے نکالنے لگی- بچی کے کپڑے الگ کیے بڑوں کے کپڑے الگ- اور واشنگ مشین لگا کر کپڑے دھونے لگی- دو گھنٹے تک وہ مصروف رہی- پھر فارغ ہوئی تو اس کا حلیہ خراب ہو رہا تھا – سارے کپڑے بھیگ چکے تھے- اور زینب دودھ مانگ رہی تھی – خالدہ آپا نے یہ ساری کاروائی ملاحظہ کی پھر حرا جو پانی میں ہاتھ نہیں ڈال رہی تھی کہ اس کو ٹھنڈ لگ گئی ہے- اس وقت ٹہلتی ہوئی آئی
زینب کو معصومہ تھپکا تھپکا کر چپ کروانے میں لگی تھی – جب حرا نے اپنی بچی کو بھی معصومہ کو تھما دیا- بھابھی میں ذرا نہانے جا رہی ہوں – حیدر انے والے ہوں گے مجھے اس طرح دیکھیں گے تو انہیں اچھا نہیں لگے گا – اس سے پہلے کہ معصومہ کوئی جواب دیتی – وہ نہانے کے لیے باتھ روم میں گھس گئی – اب دو بچے منہ پھاڑ کر رو رہے تھے
اور معصومہ کا دل کر رہا تھا کہ وہ خود بھی بین کرے- خالدہ باجی نے سارا منظر دیکھا – پھر انہوں نے عیشا کو تھاما اور معصومہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی- کب تک خود کو یوں تکلیف دیتی رہو گی- دنیا بہت ظالم ہے- اگر ابھی تم نے اس کا کوئی حل نہ نکالا- تو پھر تم ساری زندگی اآرام سے بیٹھ نہ سکو گی- آنسو خالدہ آپا کی ہمدردی سن کر معصومہ کے گالوں پر بہنے لگے- آپ بتائیں میں کیا کروں، اگر میرے مطابق چلو گی تو یقین مانو تمہاری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی –

پھر اگلا دن شروع ہوا جیسے تمام دن ہوا کرتے تھے – مگر اس دن ایسا کچھ نیا ہونا تھا جو باقی دنوں سے منفرد تھا- اگرچہ اج بھی معصومہ گھڑی کی سوئیوں پر نگاہ ٹکائے بیٹھی تھی- جیسے ہی گھڑی نے 11 بجے کا ہندسہ عبور کیا – حرا مسکراتی ہوئی زینا اتر کر ائی تھی- اس نے ایک مسکراہٹ معصومہ کی جانب بھی اچھالی تھی- ٹی وی کے سامنے بیٹھی ٹاک شو دیکھتی معصومہ نے بھی جوابا مسکراہٹ پیش کر دی- خالدہ باجی فاصلے پر صوفے پر بیٹھی تھیں
اور رسالہ پڑھ رہی تھی- حرا نے کچن میں قدم رکھا ،پہلا جھٹکا اسے اس وقت لگا جب کچن میں برتنوں کا انبار تھا- اس نے مشکل سے کپ تلاش کیا اور اسے دھویا – کچن گندا ہو تو کام کرنا کتنا مشکل ہو جاتا ہے – پھر فرج کھول کر آٹا لینے کے لیے نگاہ دوڑائی- مگر آٹا نہیں تھا سو بے ساختہ پلٹی، بھابھی آٹا نہیں ہے کیا؟ لہجے میں بے یقینی پھیلی تھی- معصومہ نے اس کی حیرت سے کافی لطف اٹھایا – بالکل ہے بہت آٹا ہے، کنستر میں سے نکال کر گوند لو
حرا کو جواب دیتی معصومہ اس معصومہ سے مختلف تھی، جو روز الو بن جاتی تھی- حرا برا سا منہ بنا کر اوپر چلی گئی – تھوڑی دیر بعد حیدر نیچے ایا – بھابھی حرا کی طبیعت خراب ہے کمزوری ہے اس سے ناشتہ نہیں بن سکتا- اس لیے اپ پلیز دو پراٹھے اور املیٹ بنا دیں- معصومہ سے پہلے خالدہ اپا نے جواب دیا ،ایسی کون سی کمزوری ہو گئی ہے کہ شام کو نہاتی ہے- اس وقت تو اسے کوئی کمزوری نہیں ہوتی
ایسا کرو معصومہ کہ تم مجھے وہ فیروزی سوٹ لا کر دو جس کے بٹن ٹانکنے ہیں، خالدہ باجی نے ایسی بات کی کہ حیدر لاجواب ہو گیا- اور قصہ ہی ختم ہو گیا- حیدر کو ناکام واپس لوٹنا پڑا – حیدر تیار ہو کر بھوکا ہی دفتر چلا گیا اور شرٹ بھی پریس نہ کروائی – کیونکہ ملازم معصومہ تو مصروف تھی- دوپہر کو جب حرا کے پیٹ میں چوہے دوڑے تو اسے نیچے انے کا خیال ایا
اس کا اترا ہوا چہرہ اس بات کی دلیل تھا کہ اسے بھوک لگ رہی ہے کچن میں پتیلے سے ڈھکنا اٹھایا تو حیران رہ گئی کہ صاف ستھری پتیلی منہ چڑھا رہی تھی اور سالن کا ایک ذرہ تک اس میں نہ تھا – اج اپ نے کھانا نہیں بنایا؟ جس پر معصومہ نے جواب دیا نہیں میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی
کیا صرف تمہاری طبیعت خراب ہو سکتی ہے ؟ حرا کوئی سخت جواب دینے والی تھی مگر نند پر نظر پڑی تو خالدہ اپا نے سخت نظروں سے دیکھا- تو وہ واپس زینہ چڑھ گئی- معصومہ اور خالدہ اپا ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے پھر بچے سکول سے ائے تو معصومہ نے ان کے لیے جو چکن سینڈوچ بنا کر ہاٹ پاٹ میں رکھے تھے وہ نکالے اور انہیں کھلا دیا
جاؤ بچوں اج انجوائے کرو کیونکہ پھوپھو کا مشورہ تھا کہ بچوں کو اج فل ڈے فن کرانا ہے اتنا سارا دن کام کر کے معصومہ کو بھی اخر آرام مل ہی گیا تھا- پھر شام کو حرا نیا سوٹ پہن کر نمودار ہوئی معصومہ سامنے لیٹی ہوئی تھی- یقینا حرا نے آج بچے سے دوپہر کو نان کباب منگوا کر گزارا کیا تھا اسی لیے اسے یقین تھا کہ اسد کے انے پر تو بھابھی نے کھانا تیار کیا ہوگا- مگر بھابھی کو یوں لیٹا دیکھ کر حرا حیران رہ گئی
جاؤ کھانا بناؤ کچن میں خالدہ باجی کی بات پر وہ مجبورا کچن میں ائی تھی- کھانا بنانا تو اسے اتا ہی نہ تھا سوچا قورمہ بنا لیتی ہوں قورمہ بنانے میں اس کی حالت خراب ہو گئی- انکھیں پانی سے بھر گئیں- ہلدی اس کے چہرے پر لگی تھی خدا خدا اس نے سالن تیار کیا تو سامنے کھڑی معصومہ پر نگاہ پڑی- بے حد نفیس کام والا سوٹ پہن کر وہ بے حد حسین لگ رہی تھی- بچے بھی خوش تھے
خالدہ اپا بھی بالکل تیار تھی – جب اسد آیا مسکرا کر اس نے اپنی بیگم پر نگاہ ڈالی – جو کہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی- ہر وقت گندے حلیے میں رہنے والی معصومہ آج اسے بہت حسین لگی، معصومہ کی اتنی پیاری صورت دیکھ کر اسد کا دل بے اختیار چاہا کہ چلو بھئی اج ہم کھانا کھانے باہر جا رہے ہیں
اچھا پھر ٹھیک ہے کھانا کھا لو تو آپ واپسی پر مجھے آمنہ کی طرف بھی چھوڑ دینا معصومہ کے دل میں خیال آیا کہ عرصہ ہوا بہن سے ملاقات نہیں ہوئی-خالدہ آپا کی آواز نے مکمل طور پر حرا کو حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے غصّیلے انداز میں کہا کہ حیدر آ گیا ہے اب اپنے میاں کے ساتھ جلا ہوا قورمہ کھا لینا ادھر عیشا کے رونے کی آواز نے اسے یہ احساس دلایا کہ ابھی اسے اسے بھی دیکھنا تھا- اسے واقعی سچ مچ چکر انے لگے اور کمزوری محسوس ہونے لگی
– جب حیدر گھر میں داخل ہو رہا تھا تو اپنی بیوی کو اتنے گندے حلیے میں دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ اسے تو ہمیشہ سے بنی سنوری حرا ہی نظر ائی تھی لیکن وہ کیا جانے کہ ہیرا کے بننے سنورنے کے پیچھے ساری محنت تو معصومہ کی لگتی تھی

Urdu stories

گمراہ

 

سبک روی سے چلتی ٹھنڈی ہوائیں ماحول کو بے حد خوش گوار بنا رہی تھیں۔ وہ اپنے جھولے پر پتنگ بنی جھول رہی تھی۔ جب اچانک ہی اس کے پاؤں سے کوئی شے ٹکرائی تھی اس نے چونک کر جھولے کو بمشکل روک کر اس شے کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہ پتھر میں لپٹا کوئی کاغذ تھا۔ اس نے گھبرا کر دائیں بائیں دیکھا اور اسے اپنے دوپٹے کے پلو میں چھپا کر غیر محسوس طریقے سے چھت کی طرف دیکھا تھا۔
سامنے والے گھر کی بالکونی میں اسد کھڑا اسے ہی مسکرا کر دیکھ رہا تھا یہ لوگ عزیز دار تھے۔ پرانی جان پہچان تھی۔ مگر حال ہی میں ادھر شفٹ ہوئے تھے۔ وہ لفظ محبت سے نابلد ضرور تھی ۔ مگر اماں کے ساتھ مستقل مزاجی سے ٹی وی دیکھ دیکھ کر وہ کئی باتوں کو وقت سے پہلے ہی سمجھنے لگی تھی۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اندر کمرے میں بھاگ گئی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے علی سے جا ٹکرائی تھی۔
“اندھی ہو کیا نظر نہیں آتا؟” علی کے ماتھے پر چوٹ لگی تھی اور اس کے پاؤں پر وہ چڑھ گئی تھی ۔ ایک تو اس لڑکی کو نجانے کب عقل آنی ہے میں کہتی ہوں لڑکی ذات ہے سنبھل کر چلا کر- اے ندرت، سن اپنی بیٹی کو کوئی ادب آداب آداب سکھا۔ وادی جان کے لیکچر پر ٹی وی میں ڈوبی ندرت نے برا منہ بنا کر ماں کی طرف دیکھا ضرور تھا مگر دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
علی کرکٹ کھیلنے چلا گیا تھا جبکہ دعا کمرے میں میں گھس گئی تھی۔ عالیہ بیگم نے تاسف سے بہو کی طرف دیکھا تھا۔ جیسے ہی ٹی وی پر مظلوم بہو کے ڈائیلاگ آنے لگے تو ندرت نے تیزی سے ٹی وی کا والیم بڑھا دیا تھا۔ جب کسی کی بیٹی بیاہ کر لائی جاتی ہے۔ اس پر ظلم کیا جاتا ہے تب یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ گھر میں اپنی بھی کوئی بچی بیاہنے کے قابل ہے۔
اور ٹی وی میں بہو کے اس ڈائیلاگ کے بعد ساس نے اس کے منہ پر زور دار چانتا رسید کیا تھا، بہو فل میک اپ میں نیر بہا رہی تھی۔ ندرت نے کن اکھیوں سے ساس کو دیکھا تھا۔ جبکہ عالیہ نے دکھ سے گہری سانس بھری تھی۔ ندرت اس بات سے قطعی طور پر بے خبر تھی کہ اندراس کی بیٹی لو لیٹر پڑھ کر آنے والے دنوں کے منصوبے بنا رہی ہے۔

ندرت تیزی سے دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف بار بار مضطرب انداز میں کچن سے باہر ملحق لاؤنج میں لگے ہوئے وال کلاک میں وقت دیکھ دی تھی ۔ آج وہ علی کا من پسند آلو گوشت بنارہی تھی۔ دعا بھی کھا تو لیتی تھی مگر اسے بھنا ہوا گوشت پسند تھا۔ وہ شوربا پسند نہیں کرتی تھی اس لیے وہ خوب اچھی طرح سے گوشت کی بھنائی کر رہی تھی ۔
مگر اس کے ذہن میں بیک وقت بہت سی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ مگر اسے زیادہ سرعت سے کام نبٹا کر رات کا لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مس ہو جانے والا ڈراما نشرمکرر میں دیکھنا تھا۔ اتفاق سے بچیوں کے گھر آنے کا بھی یہی وقت تھا۔ علی میٹرک میں تھا اور دعا سیکنڈ ایئر کالج کی طالبہ تھی وہ قدرے توقف سے گھر آتی تھی۔
اس نے بھنا گوشت تھوڑا سا نکال کر الگ باؤل میں رکھ دیا تھا۔ اور باقی گوشت میں آلو ڈال کر شوربا بنا دیا تھا ہلکی آنچ پر ڈھک کر وہ آٹا گوندھنے لگی تھی۔ جب اس کی ساس نے کچن میں جھانکا تھا۔ بہو کافی دیر پہلے چائے کا کہا تھا کیا بنی نہیں۔وہ جی بھر کر بد مزہ ہوئی تھی۔ جی بنارہی ہوں، آپ سکون سے بیٹھ جائیں۔ ندرت نے تیزلہجہ میں کہا تھا اس کے لئے تو ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔
میں کہتی ہوں ان ڈراموں میں کچھ نہیں رکھا، اپنی بچی پر نگاہ رکھو یہ عمر بہت نازک ہوتی ہے۔ صبح وہ کالج جاتے ہوئے لپ اسٹک اور آنکھوں میں کاجل لگا کر گئی ہے۔ کیا کنواری لڑکیوں کے یہ لچھن ہوتے ہیں۔ کچھ کرو ایسا نہ ہو کہ گیا وقت ہاتھ نہ آئے۔ ساس کا اتنا کہنا تھا کہ ندرت کو تو گویا پتنگے لگ گئے تھے، اس نے وہی آٹے والے ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے سخت لہجہ میں ساس سے دوبدو ہو کر کہا تھا۔
نہ آپ صاف صاف یہ کیوں کہتیں ہیں آپ کو میرا ٹی وی دیکھنا کھلتا ہے اور عامر نے ٹی وی میرے کمرے میں لگا دیا جبکہ آپ چاہتی تھیں کہ ادھر برآمدے میں لگ جائے ، آپ کی نہیں مانی تو اب میری معصوم بچی کو بددعایں دینے پر اتر آیئی ہیں۔ ندرت کی زبان کے آگے تو خندق تھی اس نے ساس کو سنا دیں۔
مگر عالیہ اس قدر بد تمیزی کے بعد بھی لب بستہ تسبیح کے دانے پھیرتی ہوئی اپنے کمرے میں داخل ہوگئی تھیں۔ اب کہاں کی چائے کہاں کا ہوش… ندرت فطرتا ایک نیک دل لڑکی تھی جب بیاہ کر اس گھر میں آئی وہ سیدھی سادی تھی۔ رفتہ رفتہ ارد گرد کے ماحول اور نت نئے سازشی ڈراموں سے وہ ساس بہو اور نند بھاوج کی گیم کھیلنے لگی تھی۔ وہ برملا کہتی تھی کہ یہ اصلاحی ڈرامے ہیں۔
اور واقعی وہ ڈرامے اصلاحی ہی ہوا کرتے تھے مگر وہ اینڈ تک صبر کئے بنا اپنے حصے کے اور اپنی طرف داری پر چند چنیدہ ڈرامے گھر میں فل والیوم پر لگایا کرتی تھی- وہ تو ان سے بھی کوئی نصیحت حاصل نہیں کرنا چاہتی تھی وہ بس چاہتی تھی کہ ساس اور نند کو ہر صورت نیچا دکھا سکے۔ جب ساس کے حق یا دفاع میں کوئی سین آتا تو وہ جھٹ چینل بدل دیا کرتی تھی۔
معاشرے میں جنم لینے والی کہانیاں معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں، کچھ اس انداز میں کہ انسان اصلاح معاشرہ کی طرف پہلا قدم رکھے مگر وہ تو بس آنکھ بند کر کے اپنی من پسند راہ پر گامزن رہتی تھی۔ اور اس معاملے میں وہ کسی کی بھی نہ سنتی تھی۔

اس دن بہت دیر ہو گئی مگر دعا گھر نہیں لوٹی … شام ڈھلنے کو تھی۔ تب دعا کی ایک دو دوستوں کو فون کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو دو دن سے کالج ہی نہیں آرہی ہے۔ اب تو ندرت کی جان نکل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کے دروازے اپنے بندے پر کھول رکھے ہیں وہ تو کہتا ہے۔ ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے نواز دوں۔ اس وقت ملامت کے آنسو موتیوں کی طرح اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔ ساس طعنے دینے کے بجائے حوصلہ بڑھا رہی ہیں۔
لو یہ گلوکوز والا پانی پی لو پھر تمہارا بی پی لو ہو جاتا ہے۔ ہائے اماں اعلی کے ابا گھر آنے والے ہیں۔ میں ان کو کیا جواب دوں گی۔ ایسا کریں اس پانی میں زہر ملا دیں تا کہ یہ قصہ ہی ختم ہو- وہ مسلسل رو رہی تھی ۔ توبہ کرو بہو۔ ایسے نہیں کہتے۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے وہ اپنے بندوں پر بھی ظلم نہیں کرتا ہاں مگر جو وہ خود اپنی جانوں پر کر بیٹھتے ہیں ۔ تم معافی مانگو، مدد مانگو وہ ضرور سنتا ہے۔
ندرت آج شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ ڈراموں اور اصل زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ساس کی باتوں سے اس کے دل کو ڈھارس بندھی تھی۔ اسی وقت دعا علی کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی۔ دعا کانپ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ اس کو میں قریبی کیفے ٹیریا سے لایا ہوں ، سامنے والے اسد کے ساتھ پیزا کھا رہی تھی ۔
یہ سنتے ہی ندرت کے تو اشتعال کی انتہا نہ رہی تھی۔ وہ کچھ سخت سست کہنے اور مارنے والی تھی جب گھر میں عامر داخل ہوئے تھے۔ یہ دعا کیا اب آئی ہے کالج سے، اس سوال پر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ لیکن عالیہ بیگم نے بڑے سبھاؤ سے کہا تھا۔ گھر تو آ گئی تھی ۔ اب علی کے ساتھ دوست کے گھر کچھ نوٹس لینے گئی تھی اس کا ٹیسٹ ہے نا۔
ماں کے سامنے عامر کچھ نہ بولے اور صحن میں لگے نلکے سے منہ ہاتھ دھونے لگے تھے۔ عالیہ کے اشارے پر سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے تھے۔ دعا جھٹ کمرے میں چلی گئی تھی اور ندرت ساس اور شوہر کے لیے چائے بنانے لگی تھی۔ آج ندرت نے پہلی مرتبہ دل سے عالیہ کے لیے چائے بنائی تھی۔ اور تب اس کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹے بچی تھی، جب عامر نے کہا۔
اماں! اپنی دعا کے لیے فرجاد کے بیٹے اسد کا رشتہ آیا ہے۔ ارے اسد تو بہت اچھا لڑکا ہے تم فورا ہاں کہہ دو عالیہ کی بات پر ندرت نے ساس کو ممنونیت سے دیکھا تھا۔ عامر نے ہنکارا بھرا تھا۔ مگر ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے۔ وہ متامل ہوئے۔ دیکھو بچیاں مناسب وقت پر اپنے گھر کی ہو جائیں تو اچھا ہے بعد میں بے شک پڑھتی رہے- ماں کی بات پر وہ مسکرا کر بولے تھے۔ ٹھیک ہے اماں ! پھر کل ہی چلتے ہیں بات پکی کر آتے ہیں۔
ندرت کی آنکھ نم مگر لب مسکرا رہے تھے۔  اور دعا اندر اللہ سے سچی توبہ کر رہی تھی کہ گمراہی سے رستے سے بچ گئی۔  اس نے اسد سے واشگاف لفظوں میں کہا تھا کہ وہ اب اس سے روز روز مل نہیں سکتی، سیدھے راستے سے رشتہ بھیجے وہ خوش تھی۔ اور اللہ تعالٰی نے اس کا پردہ رکھ لیا۔ اس نے اللہ تعالٰی سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی گمراہی کے گڑھے میں نہیں کرے گی۔ وہ آنسو پو نچھ کے عزم کر چکی تھی۔ کل کی منگنی کی تیاری بھی تو کرنی تھی۔

1 thought on “Urdu Stories”

  1. Pingback: Urdu font stories -

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top