Urdu Stories for Kids offer a very pleasant dramatic experience, original characters, and cultural variation.
Urdu stories for kids
راجہ اور رانی
دولہا اور دلہن کا کمرہ رنگوں، روشنیوں اور پھولوں سے سجا مہک رہا تھا۔ تازہ پینٹ شدہ دیواروں اور براؤن رنگ کے نئے فرنیچر نے سج دھج میں چار چاند لگا دیے تھے۔ بیڈ کے چاروں اطراف آرائشی لڑیاں جھول رہی تھیں اور بیڈ کراؤن کے عین اوپر دیوار پر پھولوں کی پتیوں سے بڑا بڑا ” شادی مبارک ” لکھا تھا۔ بیڈ پر بنفشی رنگ کی مخملیں بیڈ شیٹ بچھی تھی
اور اس کے داہنی طرف سفید کرتا شلوار میں ملبوس دولہا راجہ نکھرا ستھرا مگر کچھ تھکا ہارا سا گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھا۔ آج اس کی شادی خانہ آباد کو تیسرا دن تھا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی اس کی دلہن رواج کے مطابق اپنے بہن بھائیوں اور کزنز کے ہجوم کے ہمراہ میکے سدھاری تھی۔ شادی کے ہنگاموں اور بھاگم دوڑی میں وہ تھک کر نڈھال ہو چکا تھا۔ کمر الگ تختہ بنی ہوئی تھی۔
اب یہ دو گھڑی فرصت نصیب ہوئی تھی تو وہ بیڈ پر ڈھے سا گیا تھا۔ ایئر کولر کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لوری کا کام دے رہے تھے۔ آنکھیں آپوں آپ بند ہوئے جارہی تھیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ گہری نیند میں جاتا اماں نے کمرے میں قدم رنجہ فرمایا۔ ارے راجہ! سو گئے کیا ؟ ان کی پاٹ دار آواز گونجی۔ نہیں اماں !! اس نے آنکھیں موندے ہی جواب دیا اور ذرا سا پرے سرک کر ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی۔
سنو راجہ میں یہ کہنے آئی تھی کہ جب تم شام کو دلہن کے میکے جاؤ گے نا اسے لینے کے واسطے تو خالی ہاتھ مت چلے جانا۔ پانچ کلو کی مٹھائی کی ٹوکری بنوا لینا اور آتے ہوئے سالیوں کو بھی کچھ نہ کچھ دے کر آنا۔ ہیں ! کیا اماں؟ اماں کے ارشادات پر اس کی آنکھیں پٹ سے کھل گئیں اور دل نے صدمے سے ایک غوطہ کھایا ۔ اماں! بارات کے دن اتنا بڑا ٹوکرا مٹھائی کا گیا تھا اور پھر سالیوں کو بھی ڈھیروں رویے تھمائے تھے ۔
(اس کا اشارہ دودھ پلائی کی تگڑی سی رقم کی جانب تھا) او ہو راجہ ایک تو تم بہت بھولے ہو۔ بیٹا! وہ تو تھیں بارات کی رسمیں۔ آج تو دلہن مکلاوے گئی ہے۔ اور تو پہلی بار اسے لینے جا رہا ہے۔ اور ہمارے خاندانی رسم و رواج کے مطابق داماد مٹھائی بھی لے کر جاتا ہے اور سالیوں کے ہاتھ پر بھی کچھ نہ کچھ دھر کر آتا ہے۔ اماں نے رسان سے اسے سمجھایا تو اس کے منہ سے ایک کراہ نکل گئی۔
ہائے یہ خاندانی رسم و رواج اور ان کے تحت ہونے والے خرچے اب جو شادی کے بعد چار پیسے جیب میں بچے تھے لگتا تھا ان کا بھی قلع قمع ہو کر رہے گا۔ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، اماں تو ہدایت دے کر کمرے سے نکل گئیں جبکہ وہ گومگو کی کیفیت میں بیٹھا رہ گیا۔
راجہ کی شادی گھر کی آخری شادی تھی۔ اس لیے گھر والوں اور باہر والوں سب ہی نے جی بھر کے دل کے ارمان نکالے تھے۔ اس مہنگائی کے دور میں ارمان کون سا مفت نکلتے ہیں۔ ڈھیروں روپے خرچ ہوتے ہیں جو کہ راجہ غریب کی جیب سے ہی نکلوائے گئے تھے۔ یوں تو چھ بہن بھائیوں میں اس کا نمبر فقط تیسرا تھا مگر شادی سب سے آخر میں ہو رہی تھی۔ اس کا بھی ایک پس منظر تھا۔
سب سے بڑے اختر بھائی تھے۔ اماں ابا کے پہلوٹی کے بیٹے۔ انتہائی لاڈلے۔ ابھی گریجویشن ہی کیا تھا کہ اماں ابا کو ان کے سہرے کے پھول کھلانے کا ارمان جاگ اٹھا۔ پھر کیا تھا نوکری بھی لگنے کا انتظار نہ کیا اور جھٹ پٹ چاند سی دلہن بیاہ لائے۔ گھر میں اس وقت روپے پیسے کی کوئی تنگی نہ تھی۔ ابا کی بہت اچھی نوکری تھی۔
زرعی اراضی کا ٹھیکا بھی آتا تھا۔ یوں اماں ابا نے ان کی دلہن حتی کہ ان کے دو بچوں کا بھی بوجھ خوشی خوشی اٹھایا مگر وہ خوشی تو اس وقت اڑنچھو ہوئی جب بھیا نوکری لگتے ہی بیوی بچے سمیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سسرال کو پیارے ہوگئے۔ ان کی طوطا چشمی اور خود غرضی کا سارا خمیازہ راجہ غریب کو بھگتنا پڑا ۔ اماں نے علی الاعلان کہہ دیا۔
خبردار گھر میں کوئی بھی راجہ کی شادی کا نام نہیں لے گا جب تک کہ چاروں لڑکیاں ٹھکانے نہ لگ جائیں گی اور یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنی شادی کے تمام تر اخراجات خود اٹھانے جوگا نہ ہو جائے گا۔ اس اعلان نے راجہ کے دل کی دنیا تہہ و بالا کردی کیونکہ اس وقت تک تو وہ بھیا کی خالہ ساس کی منجھلی لڑکی رانی سے عشق فرما چکا تھا۔ اس لیے تو ان کے سسرال آنے بہانے اتنے چکر لگتے تھے اس کے، اماں سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بنی رہیں۔
پھر اس کے بعد اماں ابا نے سکون سے چاروں کو نمٹایا۔ اس کی بھی ایک چھوٹی موٹی سی نوکری لگ گئی۔ اس نے بہنوں کے ذریعے دباؤ ڈلوا کر کسی نہ کسی طرح رانی سے منگنی تو کروائی مگر اماں شادی سے ہنوز انکاری تھیں۔ چپ چاپ پیسے جمع کر، ہم سے کوئی امید نہ رکھنا۔ ہم تو خود چاروں لڑکیوں کو بیاہ کر خالی ہوئے بیٹھے ہیں ۔
لڑکی والوں کی طرف سے دبا دبا سا شادی کا مطالبہ بھی کیا گیا تو اماں نے بغیر لحاظ و مروت کے جتا دیا۔ ہمارے لڑکے کی ابھی اتنی حیثیت نہیں ہے۔ انتظار ہو سکتا ہے تو کرو ورنہ اپنی لڑکی کے لیے کوئی اور بر تلاش کرلو اماں کے اس سنگ دلانہ بیان پر جہاں اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ وہاں رانی نے تبھی خم ٹھوک کراپنے گھر والوں سے کہہ دیا۔
اگر راجہ کے علاوہ میرے لیے کوئی اور بر ڈھونڈا گیا تو میں گندم میں رکھنے والی گولیاں پھا نک لوں گی- یعنی آگ تو دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی۔ بس نصیب ہی ٹھنڈے تھے ۔ اس کی نوکری معمولی تھی تو تنخواہ بھی قلیل تھی۔ بیاہی بہنوں کا گھر تھا۔ کبھی کسی کا چھلہ اور بھی کسی کے بچے کا عقیقہ۔ دینا دلانا تو پڑتا تھا۔ اماں ابا کی اپنی حالت پتلی تھی۔
ابا ریٹائر ہو چکے تھے اور زرعی اراضی بھی تایا اور چاچا میں تقسیم ہو کر مختصر سی ان کے حصے میں آئی تھی۔ بہرحال وہ بچت کرنے میں جتا رہا۔ چند سال اور سرک گئے مگر جب اماں نے شادی کا نام تک نہ لیا تو ایک دن اس نے خود ہی بے شرم ہو کر کہا۔ اماں ! وہ میری شادی ؟ کیا کہا شادی ؟؟ اماں نے خشمگیں نظروں سے گھورا۔ ہاں اماں! میرا خیال ہے اب تو کافی رقم جمع ہوگئی ہے ۔ اس نے تھوک نگلا۔
ارے جتنے پیسے تو سنبھال کر اترا رہا ہے نا تو اتنے میں بامشکل بری کے کپڑے لتے ہی آیائیں گے۔ زیور کہاں سے بنواؤں گی۔ اپنے والا تو سارا میں بہو اور بیٹیوں کو چڑھا چکی ہوں ۔ اماں نے ایک اور دل خراش انکشاف کیا۔ اماں گولڈ کے زیورات کوئی ضروری تو نہیں ہیں آج کل بازار میں ایک سے بڑھ کر ایک مصنوعی زیورات دستیاب ہیں۔ بالکل اصلی کا گمان ہوتا ہے۔
ایک دوسیٹ وہی خرید لیں گے۔ اپنے تئیں اس نے جھٹ مشکل کا حل بتایا مگر اماں تو اچھل پڑیں۔ کم بخت! باؤلا ہو گیا ہے کیا؟ اس عمر میں میرے سر میں شریکوں کے سامنے سواہ ڈلوائے گا کیا۔ نیکے کی شادی کا ماجرا بھول گئے کیا۔ اس کی ماں بھی مصنوعی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر لے گئی تھی۔ دلہن کی تائی اور بچیوں نے جھٹ بھانپ لیا۔ ماں بیٹے کی کیسی درگت بنی تھی۔
دلہن والے تو بارات واپس کرنے پر تل گئے تھے۔ بڑی مشکل سے کچھ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر معاملہ ٹھنڈا کرایا تھا۔ یوں اس کی شادی مزید لٹک گئی۔ اب تو یاردوست بھی مذاق اڑانے لگے تھے۔ یار جب تمہاری شادی ہوگی نا تو بچے بارات کے دن دولہا راجہ آ گیا، دولہا راجہ آگیا کی بجائے کہیں گے دولہا بابا آگیا دولہا بابا آ گیا۔ وہ اپنی جگہ پر کھسیا کر رہ جاتا۔
آخر کار قدرت کو اس پر ترس آہی گیا۔ اسے فیصل آباد کی ایک ٹیکسٹائل مل میں اچھی نوکری مل گئی ۔ تنخواہ بھی معقول تھی۔ یوں بچت مہم تیز تر ہوگئی اور وہ ایک دو سال میں زیورات بنوانے میں بھی کامیاب ہو گیا اور اس کی شادی کی تاریخ ٹھہرا دی گئی۔
راجہ اور رانی کی شادی خوب دھوم دھام سے ہوئی۔ دونوں پر رج کے روپ چڑھا۔ دونوں ہی نے ہجر کی طویل رات کاٹی تھی اور اب ملن کا خوب صورت سویرا ان کا منتظر تھا۔ لگن سچی ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے- راجہ کو با مشکل دو ہفتوں کی چھٹی ملی تھی ۔ ہر روز ہی وہ دونوں کسی خالہ، مامی، چاچی، یا پھوپھی کے ہاں مدعو ہوتے یا پھر نئے نویلے جوڑے سے خاندان بھر میں سے کوئی نہ کوئی ملنے آیا رہتا۔
ایسے ہی مصروف سے شب وروز میں اتنی فرصت ہی نہیں مل رہی تھی کہ فسانہ دل ایک دوجے کو سنایا جاتا۔ راجہ تو اپنے ایک شاعر دوست سے ڈائری پر ڈھیروں اشعار لکھوا کر لایا تھا کہ رانی کو شعر و شاعری سے بہت شغف تھا مگر ایک تو بیاہی بہنوں اور ان کے بچوں کے شور شرابے میں سکون ہی میسر نہیں آرہا تھا دوسرا وہ ڈائری کم بخت بھی سامان میں نجانے کہاں کھو گئی تھی۔
چھٹیوں کے گنے چنے دن تیزی سے سرک رہے تھے۔ مگر اس بار راجہ کے بے قرار دل کو کچھ تسلی سی تھی کیونکہ واپسی پر رانی بھی اس کے ہمراہ جارہی تھی ۔ شادی سے پہلے ہی گھر والوں کے باہمی مشورے سے یہ بات طے پا چکی تھی کہ وہ جاتے ہوئے رانی کو بھی ساتھ لے جائے گا۔
اس طرح ایک تو نیا جوڑا وہاں ہنی مون بھی منالے لگا اور پھر راجہ کو روٹی پانی کا جو مسئلہ ہوتا ہے وہ بھی نمٹ جائے گا۔ اس لیے آتے ہوئے وہ کرائے کے ایک چھوٹے سے گھر کا بندوبست کر کے آیا تھا۔ تھوڑی بہت پلاننگ اس نے وہیں کر لی تھی کہ وہ رانی کو جھنگ بازار کی سیر کرائے گا۔ حلوہ پوری اور نان چنے کھانے وہ بھوانہ بازار یا پھر کچہری بازار کی طرف نکل جایا کریں گے۔
وہ رانی کو گھنٹہ گھر بھی دکھائے گا۔ یہاں کے مشہور دہی بڑے اور چنے چاٹ بھی کھایا کریں گے ۔ مگر وائے افسوس ابھی قدرت کو ان کی مزید آزمائش مطلوب تھی۔
رات نصف سے زیادہ بیت چکی تھی مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اس نے پہلو میں لیٹی اپنی نئی نویلی دلہن کو دیکھا جس کے صبیح چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔ اسے رشک سا آیا۔ کاش اس کی بھی تمام پریشانیاں ہوا میں کہیں تحلیل ہو جاتیں جن کی اس نے اسے ابھی تک بھنک بھی نہیں پڑنے دی تھی۔ یہ فیصل آباد سے آتے ہوئے وہ اچھی خاصی رقم ہمراہ لایا تھا۔ اس کی درخواست پر آفس والوں نے اسے ایڈوانس بھی دیا تھا۔ احتیاطا وہ کچھ دوستوں سے ادھار بھی پکڑ لایا تھا۔
مگر شادی کے موقع پر رسم و رواج کے نام پر اسے اتنا لوٹا گیا تھا کہ شادی جیسی انمول نعمت بھی پھیکی پھیکی سی لگنے لگی تھی ۔ پھر ولیمے کے بعد اتنے بل دینے پڑے تھے۔ مہندی پر ہار پھولوں کا بل لائٹنگ کا بل ، کراکری کا بل، کیٹرینگ کا بل، ولیمے کے کھانے کا بل ، بل ہی بل دیتے ہوئے وہ بلبلا اٹھا تھا۔ اختر بھائی نے تو جھوٹے منہ بھی چند روپوں کی آفر نہ کی تھی۔ اماں ابا نے البتہ ایک چھوٹی سی رقم ضرور تھمائی تھی۔
اب جانے کا وقت آ گیا تھا اور حال یہ تھا کہ اس کی جیب میں اپنے جانے کا کرایہ تک نہ بچا تھا۔ اس لیے رانی کو ہمراہ لے جانے والا پروگرام صاف کھٹائی میں پڑتا نظر آ رہا تھا۔ سوچ سوچ کر اس کے سر میں درد ہو رہا تھا ۔ اس نے سردرد کی گولی تلاش کرنے کے لیے بیڈ کی دراز کهینچی ۔ اندر رانی کا گولڈن پرس جگمگا رہا تھا۔ پرس کافی پھولا پھولا سا دکھ رہا تھا۔ یقیناً اس میں سلامی کے پیسے تھے۔
ایک دم سے اس کے ذہن میں ایک ہلکا سا خیال آیا پھر اس نے فورا ہی اسے جھٹک دیا۔ اب کیا وہ اپنی نئی نویلی بیوی سے ادھار مانگتا اچھا لگے گا؟
صبح سویرے کا وقت تھا۔ وہ کچن میں داخل ہوا تو اماں آٹا گوندھ رہی تھیں۔ وہ ایک موڑھا گھسیٹ کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ اماں ! پرسوں میں واپس جارہا ہوں ۔ ہیں اتنی جلدی تمہاری چھٹی ختم ہو بھی گئی؟ اچھا تو پھر دلہن سے کہو وہ تمہارا اور اپنا ضروری سامان پیک کر لے۔ اماں نے گوندھا ہوا آٹا ایک پیالے میں نکالتے ہوئے کہا۔ اماں ! رانی میرے ساتھ نہیں جارہی ، وہ یہیں رہے گی ۔
وہ کچھ پست آواز میں بولا۔ ہیں ؟ مگر کیوں ؟ تم تو وہاں گھر کا انتظام کر کے آئے تھے نا ؟ اماں کا لہجہ استفہامیہ ہوا۔ ہاں اماں ! مگر خالی خولی گھر سے کیا ہوتا ہے۔ اور بہت کچھ بھی چاہیے ہوتا ہے۔ سازو سامان وغیرہ، ہاں تو تمہاری دلہن جو ٹرک بھر کے جہیز لائی ہے وہ کیا میں نے استعمال کرنا ہے۔ نہ بھی نہ میں ان ساسوں میں سے نہیں ہوں جو بہوؤں کے داج جہیز پر نظر رکھتی ہیں۔
میرا تو اپنا ڈھیروں سامان اسٹور میں پڑا ہے۔ تم ایک سوٹ کیس لے کر دلہن کے ہمراہ روانہ ہو جاؤ میں اختر سے کہوں گی وہ سامان کا ٹرک لوڈ کروا کر پیچھے بھجوا دے گا۔ ہاں ٹرک والا جیسے مفت لے جائے گا. وہ جل کر بولا۔ اماں ! آپ سمجھتی نہیں ہیں۔ میرے پاس بالکل پیسے نہیں ہیں۔ بیوی کا خرچا کہاں سے کروں گا۔
خود تو ریڑھی سے لے کر ایک سوکھا نان بھی کھا کر گزرا کرلوں گا ۔ وہ جھنجلا اٹھا۔ ہائے میرے لال! اماں تڑپ اٹھیں ۔ میرے پلے بھی کچھ نہیں ہے جو تمہیں دے دوں۔ تھوڑے دنوں تک وہ چھوٹی والی بھی چھلے کے لیے دوبارہ آ جاے گی- مسقط والی بھی میاں اور بچوں کے ہمراہ ابھی مہینہ بھر ادھر ہی رہے گی۔ اگلے مہینے شاید جائے۔
اماں کے اپنے دکھڑے تھے۔ مگر میرے چاندا لڑکی والوں کو تو یہی بتایا تھا کہ دلہن ساتھ جائے گی وہ کیا سوچیں گے! اماں کو ایک اور نکتہ سوجھا ۔ اماں! وہ جو مرضی سوچیں مگر فی الحال میں رانی کو چھ سات ماہ تک وہاں نہیں لے جاسکتا ۔ ایڈوانس تنخواہ میں خرچ کر چکا ہوں۔ دوستوں کا ادھار چکانا ہے۔ مکان کا کرایہ بھی ابھی واجب الادا ہے۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے، بس آپ میرے بعد رانی کا خیال رکھنا۔ اس نے کہا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔
بچھڑتے سمے دونوں اداس اور دل گرفتہ تھے۔ رانی کے لب خاموش اور آنکھیں بھری ہوئی تھیں مگر ان آنکھوں میں ٹھہرے تمام آنسو راجہ کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ اپنی مجبوریوں کی داستان اسے سنا چکا تھا جو اس نے بڑے صبر سے بغیر کسی گلے شکوے کے سن لی تھی اور ساتھ ہی سلامی کے پیسوں کی آفر بھی کی تھی۔
مگر ایک تو اس کے ضمیر نے گوارا نہیں کیا کہ وہ بیوی کو تحفے میں ملنے والی رقم ہتھیا لے ، دوسرے اتنے تھوڑے سے پیسوں سے کچھ بھی ہونے والا نہ تھا۔ اس نے پیسے دوبارہ اس کی مٹھی میں دبا کر اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں کی گرفت میں لیا۔ طویل جدائی کے بعد محبت کو ایک جائز رشتہ ملا بھی تو ساتھ نصیب نہ ہورہا تھا۔ وہ بڑے بھاری دل کے ساتھ فیصل آباد کے لیے روانہ ہو گیا۔
منہ اندھیرے ہی وہ فیصل آباد پہنچ گیا۔ اپنی موٹر سائیکل وہ بس ٹرمینل کے اسٹینڈ پر ہی کھڑی کر کے آیا تھا۔ وہاں سے نکلوا کر وہ اس پر سوار ہو کر گھر جا پہنچا۔ یہ ایک ڈبل اسٹوری مکان تھا، جس کا اوپر والا پورشن اس نے کرائے پر شادی سے چند روز قبل ہی لیا تھا۔ مالک مکان کا نام فیاض تھا جن سے وہ اپنے ایک دوست کے توسط سے ملا تھا۔
فیاض صاحب نہایت شریف النفس اور نیک فطرت انسان تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ہمراہ نچلے پورشن میں رہائش پذیر تھے۔ دو بیٹیاں تھیں جن کی وہ شادی کر چکے تھے۔ ان کی اپنی بھی گورنمنٹ جاب تھی مگر چند سال قبل شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریوں نے انہیں ایسا گھیرا کہ ریٹائر منٹ لینی پڑی۔ پنشن کی رقم سے انہوں نے اوپر والا پورشن بنوا لیا تھا تا کہ اضافی آمدنی کا اسرا رہے۔
مین گیٹ کی چابی اس کے پاس تھی۔ اس نے گیٹ کھول کر احتیاط سے موٹر سائیکل کو اندر گھسیٹا تا کہ گھر والے بے آرام نہ ہوں اور پھر دبے پاؤں سیڑھیاں چڑھ کر اپنے پورشن تک آ گیا۔ دروازہ کھولا تو خالی گھر دیکھ کر دل میں ہوک سی اٹھی۔ اس نے کیا کیا سوچا تھا کہ رانی کا ہاتھ تھام کر گھر میں داخل ہوگا۔ پھر دونوں مل کر گھر کا چولہا جلائیں گے۔ سجائیں گے سنواریں گے مگر … اس نے بے دلی سے سفری بیگ ایک طرف اچھالا اور خود نیچے بچھی چٹائی پر ڈھیر ہو گیا-
وہ دن چڑھے تک سوتا رہا پھر ٹھک ٹھک کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی۔ دروازہ کھولا تو سیڑھیوں کے پاس فیاض بھائی کھڑے اپنی چھڑی کی نوک سے ریلنگ بجارہے تھے۔ وہ دو دو اسٹیپ پھلانگتا ہوا ان تک پہنچا- ارے شہزادے آگیا تو ؟؟ وہ گرم جوشی سے اس سے لپٹ گئے۔ شادی مبارک ہو بھی بہت بہت، نہ تم نے آنے کی اطلاع کیوں نہ دی۔
وہ تو ابھی تمہاری موٹر سائیکل گیراج میں کھڑی دیکھی تو معلوم ہوا کہ دولہا صاحب تشریف لا چکے ہیں ۔ انہوں نے اسے گلے لگائے لگائے ہی کہا۔ اپنے جوش و خروش میں وہ اس کا بجھا بجھا سا انداز نوٹ نہ کر سکے۔ و بھئی برخوردار! ایسا ہے کہ تم اور دلہن تیار ہوکر نیچے آجاؤ۔ تمہاری بھابھی ناشتہ بنارہی ہیں۔ مل کر کرتے ہیں۔
(وہ جاتے ہوئے انہیں بتا کر گیا تھا کہ واپسی پر دلہن اس کے ہمراہ آئے گی )- وہ فیاض بھائی ! میں اکیلا ہی آیا ہوں۔ دلہن نہیں آئی۔ اس نے کچھ جھجک کر بتایا۔ وہ کیوں بھئی ؟ تمہارا تو یہی پروگرام تھا۔ میں نے تو پانی والی ٹنکی بھی بھروا دی تھی ۔ ان کی نظریں سوالیہ ہوئیں۔ وہ بس بھائی ! وہاں جا کر حالات کچھ ایسا رخ اختیار کر گئے تھے کہ دلہن کو ساتھ لانا ممکن نہ رہا تھا۔ اس کا لہجہ پست تھا مگر چہرے پر مجبوریوں کی داستان رقم تھی۔
مزید کچھ کہنا نہ پڑا۔ فیاض صاحب کی جہاں دیدہ نگاہوں نے سب کچھ پڑھ لیا۔ اچھا! اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا ۔ انہوں نے اس کے کندھے پر تسلی بھری تھپکی دی۔ تم فریش ہو کر آجاؤ۔ میں تمہارا اور اپنا ناشتہ ڈرائنگ روم میں لے کر آتا ہوں۔ نہیں بھائی! اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے راستے میں چائے پی لی تھی۔ کیوں کیا خالی چائے پر گزارا کرو گے… انہوں نے شفقت سے ڈپٹا تو وہ ان کے خلوص پر شرمندہ سا ہو گیا۔
پھر وہ آتے ہی گدھوں کی طرح کام میں جت گیا۔ اس نے فیکٹری میں صبح اور شام دونوں شفٹوں میں ڈیوٹی لگوالی۔ رات گئے گھر لوٹتا تو تھکا ماندا بستر پر گرتے ہی بے خبر ہو جاتا۔ دو گھڑی فرصت نصیب ہوتی تو موبائل پر رانی سے بات بھی ہو جاتی ۔ گاؤں میں اکثر سگنل کا مسئلہ ہی رہتا تھا۔ ٹھیک سے بات ہی نہ ہو پاتی ۔ آواز کٹ جاتی۔ وہ بے دلی سے فون ایک طرف پھینک دیتا۔
اس دن جمعہ تھا۔ اس کا ایک بھی کپڑا دھلا ہوا نہیں تھا۔ پہلے تو دھوبی کو دے دیتا تھا مگر اب بچت کے خیال سے اس نے خود دھونے کا سوچا۔ کپڑے دھو کر وہ الگنی پر پھیلا رہا تھا، جب اسے سیڑھیوں پر قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر کھانسی کی زور دار آواز ، فیاض بھائی بامشکل سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آرہے تھے۔ ایک ہاتھ میں ڈھکی ہوئی پلیٹ تھام رکھی تھی۔
یہ لو راجہ ! تمہاری بھابھی نے آج بریانی بنائی تھی- پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ انہوں نے مشکل سے ہی جملہ مکمل کیا۔ اوہو فیاض بھائی آپ نے خود کیوں زحمت کی؟ مجھے آواز دے دیتے .. راجہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر پلیٹ ان کے ہاتھوں سے پکڑی اور انہیں سہارا دے کر چارپائی پربٹھایا۔ تم گھر میں ہوتے کب ہو؟ سارا سارا دن غائب رہتے ہو۔
رات کو بھی نجانے کس پہر آتے ہو- یہ تو آج اوپر سے کھٹر پٹر کی آوازیں آ رہی تھیں تو میں نے سوچا کہ تمہیں کھانا دے آتا ہوں۔ اس بہانے ملاقات بھی ہو جائے گی مگر یہ چار سیڑھیاں چڑھتے ہوئے برا حشر ہو گیا۔ ان کی سانسیں کچھ ہموار ہوئیں تو وہ راجہ کو کچھ خفگی سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئے۔ گھر کتنا سونا سونا سا لگ رہا ہے۔
ہم نے تو سوچا تھا کہ دلہن آئے گی تو کوئی رونق شونق ہو جائے گی ۔ مگر تم تو جیسے لنڈورے گئے تھے ویسے لنڈورے آئے۔ وہ جواب میں فقط پھیکے پن سے مسکرا کر رہ گیا۔ راجہ! میں تو کہتا ہوں کہ کل ہفتہ ہے اور پرسوں اتوار ایک چھٹی لے لو اور نکل جاؤ گاؤں کے لیے۔ دلہن کو لے کر آ جاؤ- مگر فیاض بھائی ! اتنی جلدی تو یہ قطعی ممکن نہیں ہے۔
آپ میری مشکلات سے آگاہ تو ہیں ؟ وہ ان کے جھٹ پٹ پروگرام پر مغموم سا ہو کر بولا۔ تمہاری مشکلات کا کچھ حل تو ڈھونڈا ہے میں نے- یہ کہ کر انہوں نے اپنے کرتے کی جیب سے ایک خاکی رنگ کا پھولا سالفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ د میں نے تو اسی دن ٹھیکے دار سے کہا تھا کہ رقم دے جائے ۔
مگر اس ناہنجار نے بھی آنا کانی کرتے کرنے اتنے دن گزار دیے۔ آج ہی دے کر گیا ہے- نہیں فاض بھائی !! وہ کرنٹ کھا کر تھوڑا سا پیچھے سرک گیا۔ میں آپ پر مزید بوجھ نہیں بن سکتا۔ پہلے ہی میرے سر پر آپ کے بہت احسانات ہیں۔ آپ نے جاتے ہوئے بھی تحفتاً کچھ پیسے دیے تھے۔ میرے حالات کی وجہ سے فی الحال کرایہ بھی نہیں لے رہے۔
آپ اور بھابھی تو خود بیمار رہتے ہیں۔ آپ کو تو خود ضرورت ہے۔ دیکھو راجہ ! انہوں نے اپنا چشمہ اتارا اور اسے رومال سے صاف کر کے دوبارہ اپنی آنکھوں پرجماتے ہوئے پر سوچ انداز میں بولے۔ جن حالات سے تم آج گزر رہے ہوا نہ کم و بیش اس طرح کی حالات کو میں نے آج سے تقریبا اٹھائیس سال پہلے بھگت چکا ہوں۔ کہانی تم سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ خالہ کے ہاں منگنی ہو چکی تھی۔ اچانک خالو بیمار پڑ گئے۔ اتنے زیادہ کہ لگتا تھا کہ فرشتہ اجل اچک لے جائے گا۔ ( یہ اور بات ہے کہ ہماری شادی کے بعد بہت سال تک وہ زندہ رہے)- لڑکی والوں کی طرف سے شادی کے لیے دباؤ بڑھ گیا۔ نا چاہتے ہوئے بھی اماں ابا تیار ہو گئے۔ میں نے بہتیرا کہا کہ سادگی سے نکاح کردیں۔ مگر اکلوتی نرینہ اولاد تھا۔
سادگی سے کرتے ہوئے بڑوں کی انا آڑے آئی تھی۔ جو جمع جتھا تھا سب ہی خرچ ہو گیا۔ میں نئی نویلی دلہن کو گاؤں چھوڑ کر لوٹ آیا۔ امید تھی کہ سال چھ ماہ میں حالات سدھرتے ہی لے آؤں گا۔ مگر یہاں آتے ہی اچھی بھلی نوکری چھوٹ گئی۔ نئی نوکری لگنے اور کچھ پاؤں جمنے میں ہی اتنا عرصہ لگ گیا کہ دلہن کو تو کیا یہاں لا پاتا۔ خود ہی چھ چھ ماہ تک بامشکل گھر کا چکر لگتا۔
جب حالات میں کچھ بہتری آئی، چند سال مزید آگے سرک گئے تھے۔ اور وہاں گاؤں میں ہماری دو چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی یکے بعد دیگرے پیدا ہو چکی تھیں۔ معاشی لحاظ سے تھوڑا اور مستحکم ہوتے ہی میں بیوی بچوں کو یہیں لے آیا۔ مگر اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی تھی۔ وہ اولین دونوں کی محبت، چاہت، نرم گرم جذبات سب ہی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر باسی، بوسیدہ ہو چکے تھے۔
ویسے بھی دو چھوٹی بچوں کا ساتھ تھا۔ نئے نویلے جوڑے کی طرح موٹر سائیکل پر سیریں کرتے اور پارکوں میں لور لور پھرتے اچھے تو نہ لگتے تھے۔ اور نہ ہی دل کو سیر و تفریح اور ہلے گلے کی چاہ رہی تھی۔ بیمار بچے، کسی کو فلو کسی کو بخار، زیادہ تر ڈاکٹروں کے پاس ہی چکر لگتے تھے۔ پھر حالات بہتر سے بہتر ہوتے چلے گئے۔ میں نے تلافی کی بھی کافی کوشش کی۔
اتنے سال اکٹھے بھی رہے مگر اس نیک بخت کے دل سے ان اولین دنوں کی جدائی کا قلق ہی نہیں جاتا۔ آنے بہانے جتائی رہتی ہے۔ اس کا بھی کوئی قصور نہیں ۔ ہر چیز اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے۔ جس طرح سوکھے ہوتے پھولوں سے رفتہ رفتہ خوشبو کم ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح جذبات و احساسات کو بھی بروقت پذیرائی نہ ملے تو وہ بھی سرد ہو جاتے ہیں۔
مرجھا جاتے ہیں۔ ان پر بھی اوس پڑ جاتی ہے۔ پھر اس لحاظ سے مرد اور عورت میں فرق بھی ہے۔ عورت کے جذبات کانچ سے بھی نازک ہوتے ہیں۔ مرد تو حالات کی مار سہہ کر بھی اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ مگر عورت کے کومل احساسات کی بے قدری ہو تو وہ ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ اپنے دل میں ایسے زخم بنالیتی ہے جن سے درد کی ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں ۔
وہ دور کہیں ماضی میں کھوئے کھوئے سے بول رہے تھے اور وہ ہونق پن سے منہ کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔ بظاہر سیدھے سادے نظر آنے والے فیاض بھائی تو عورت کی نفسیات پر غالبا پی ایچ ڈی کیے ہوئے تھے۔ ان کے حرف حرف سے متفق ہونے کے باوجود اس نے رقم کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا تو انہوں نے جھنجلا کر لفافہ اس کی گود میں ڈال دیا۔
فی الحال تو ایسے کوئی ہنگامی حالات نہیں کہ مجھے ابھی کے ابھی ان پیسوں کی ضرورت ہو ۔ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ رحم فرمائے گا۔ جب سہولت ہو آہستہ آہستہ لوٹاتے رہنا۔ ابھی تو تم دلہن کو لانے کی تیاری پکڑو۔ وہ ذرا ڈ پٹ کر بولے تو وہ ان کے خلوص پر ایک بار پھر شرمندہ ہو گیا۔ اس نے ان کی طرف ممنون نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچا۔ کون کہتا ہے کہ صرف عورت ہی عورت کا دکھ سمجھ سکتی ہے۔ مرد بھی مرد کا دکھ سمجھ لیتا ہے
Urdu stories for kids
ہاتھی والوں کا قصہ
ابرہہ یمن کا حکمران تھا۔ اس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کر کے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرا دیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لیے مکہ مکرمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیت اللہ سمجھے۔
اس اعلان سے عرب کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پھر ان میں سے کسی شخص نے رات کے وقت اس کلیسا میں جا کر گندگی پھیلا دی۔ ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا، تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کر کے مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔
راستے میں عرب کے کئی قبیلوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔ آخر کار یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ پہنچ گیا۔ اگلی صبح جب اس نے بیت اللہ کی طرف بڑھنا چاہا۔ تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔
اسی وقت اس کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور لشکر پر چھا گیا۔ ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے۔ جو انہوں نے لشکر کے لوگوں پر برسانے شروع کر دیے۔ ان کنکروں نے لشکر کے لوگوں کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا۔
یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہی ہلاک ہو گئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستے میں مرگئے۔ ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا۔
اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا۔ وہاں اس کے سارے بدن سے خون بہہ بہہ کر ختم ہو گیا۔ اس کی موت سب سے زیادہ عبرت ناک ہوئی۔ اس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے۔ جو اپاہج اور اندھے ہو گئے۔
اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور طاقت پر غرور کرنے والوں کو سزا کا مزہ چکھایا۔ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں اللہ پاک نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا۔
“کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کر دیا”۔ (آیت – ١ تا ٥
Urdu stories for kids
گھر کی قدر
مجھے میرے احساس نے ماردیاتھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ زندگی کی کوئی خوشی میرے پاس نہیں تھی۔ پریشان ہو کر رہ گیا تھا۔ دولت تو بہت دور کی بات ہے، کوئی گیسو کسی آنچل کا سہارا بھی نہیں تھا۔ اس ناامیدی کی کیفیت میں اپنے ایک جاننے والے اطہر بھائی سے ملاقات ہوگئی ۔ وہ ایسے آدمی تھے جن کو میں نے ہمیشہ خوش ہی دیکھا تھا۔ میں نے جب ان سے ان کی ہر دم خوشی کا راز پوچھا تو انہوں نے جواب دیا بہت آسان تھا۔ میاں ایک شعر شن لو۔اسی میں راز چھپا ہوا ہے۔ چلیں سنا دیں ۔ میں نے بے دلی سے کہا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔
‘ انہوں نے شعر سنا دیا۔ شعر واقعی بہت اچھا تھا اور ایک فارمولہ بتا دیا گیا تھا کہ اس پرعمل کر جاؤ تو سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔ اطہر بھائی۔ شعر تو بہت اچھا ہے۔ میں نے تعریف کی۔ میاں فارمولہ بھی اچھا ہے ۔ تم ابھی سے اس پر عمل کرو۔ ایک ہفتے کے بعد آ کر بتاؤ۔ کیا ہوا؟ میں اطہر بھائی کے پاس ایک خاص کام سے گیا تھا۔ اس دن میری جیب میں کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ میں اطہر صاحب سے ایک ہزار روپے لے لوں گا ۔
اس کے بعد وہیں سےٹیکسی کر کے راستے سے کھانے پینے کی چیز یں لے کر گھر واپس آ جاؤں گا۔ کم از کم دو دنوں تیک کا خرچ چل ہی جاۓ گا۔ گھر میں کوئی نہیں تھا۔ ابھی تک شادی نہیں ہوسکی تھی۔ اب یہ بتاؤ کہ اگر ہزار روپے مل جا ئیں تو تم خوش ہوجاؤ گے؟ظاہر ہے اطہر بھائی ۔اس سے کئی کام نکل جائیں گے- تو بس میں تمہیں پیسے نہیں دے رہا۔ تم کو ابھی سے اس فارمولے پر عمل کرنا ہے ۔
دیکھ لینا تم نے اس شعر کو اپنے ذہن میں اتارلیا تو پھر تمہیں کوئی غم بھی نہیں ہوگا۔“ میں ان سے پیسے لیے بغیر اس شعر کی سوغات لے کر واپس آ گیا۔ گھر آ کر مجھے نفیسہ کا خیال آیا۔ میں نے نفیسہ نام کی ایک لڑکی سے محبت کی تھی جو یہ چاہتی تھی کہ میں اس کے باپ سے جا کر ملوں۔ میں نے اسے ایک شعر بھی سنایا تھا۔
میری حیات کی راہوں میں پیچ وخم ہیں بہت می خوب سوچ لے پہلے جو میرے ساتھ چلے نفیسہ کے باپ سے ملاقات کو میں ابھی تک ٹال رہا تھا لیکن اب ان سے ملنا ضروری ہو گیا تھا۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر تھے۔ ان کے ذریعے کوئی جاب بھی ہوسکتی میں نے نفیسہ کو فون کر کے کہا۔ ”میرا خیال ہے کہ میں تمہارے ابو سے جا کر مل ہی لوں۔ ہاں ہاں چلے جاؤ۔ اس نے کہا۔” میں نے ابو سےبات کی ہوئی ہے۔بس ان کو تمہارے آنے کا انتظار ہے۔ وہ تمہارا انتظار ہی کر رہے ہیں ۔ تم ان سے جا کر مل لو ۔“ نفیسہ کے والد ایک اعلی سرکاری عہدے دار تھے۔ بہت دھاک تھی ان کی ۔
ان کے پاس جاتے ہوۓ جھجک ی ہورہی تھی لیکن نفیسہ نے مجبور کر کے مجھے ان کے دفتر بھیج دیا۔ اس نے اپنے ابو سے میرے بارے میں بات کر لی تھی۔ میں دوسرے دن بہترین ڈریسنگ کر کے ان کے پاس پہنچ گیا۔ وہ اپنی پوری شان کے ساتھ اپنے کمرے میں ہی تھے۔آؤ صاحب زادے، آؤ۔نفیسہ نے مجھے تمہارے بارے میں بتا دیا تھا۔ جی جناب ۔ میں اس سے زیادہ کیا کہ سکتا تھا۔ بیٹھ جاؤ ۔ انہوں نے سامنے والی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ میں مؤدب ہو کر سامنے بیٹھ گیا۔
زندگی میں پہلی بارایسا انٹرویو دے رہا تھا۔ تم خدانخواستہ میری بیٹی سے عشق تو نہیں کرنے لگے ہو؟ انہوں نے ایک ایسا سوال کیا کہ میں چکرا کر رہ گیا۔ میرا خیال ہے کہ کسی بھی باپ نے براہ راست ایسا سوال ہونے والے داماد سے بھی نہیں کیا ہوگا۔ شرمانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں یا نہ میں جواب دو۔ عشق کیا جناب ، بس نفیسہ مجھے بہت پسند ہے ۔ میں اسے ہر حال میں خوش رکھوں گا ۔ میرا خیال ہے کہ ابھی ہماری گفتگو اتنی آگے نہیں بڑھی کہ تم خوش رکھنے یا نہ رکھنے کی بات کرو۔ انہوں نے کہا۔ میں ایک بار پھر چکرا کر رہ گیا۔ عجیب بے دھڑک انسان تھے۔ کام کیا کرتے ہو؟ انہوں نے پوچھا۔ جاب کی تلاش میں ہوں جناب ۔ میں نے کہا۔ مجھے امید ہے کہ بہت جلد کوئی ملازمت مل ہی جاۓ گی ۔ اور اس وقت تک کیا اپنی بیوی کو بھوکا رکھو گے؟“ نہیں جناب، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو خود کھاؤں گا اس کو بھی کھلاؤں گا ۔“ جب تمہارے پاس خود کھانے کونہیں ہے تو اس کو کہاں سے کھلاؤ گے؟ ” اس کی فکر نہ کر یں۔ شادی کے بعد نفیسہ میرا مسئلہ ہوگی۔
“ لیکن شادی سے پہلے تک تو میرا مسئلہ ہے نا؟ اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں تم جیسے نا کارہ انسان سے اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر سکتے ۔ میرے سینے پر پر چھیاں ہی چل کر رہ گئیں۔ نفیسہ میرے لیے سب کچھ تھی۔ زندگی میں اب تک سواۓ محرومیوں کے اور کیا ملا تھا۔ کوئی خوشی نہیں۔ اب وہ بھی ہاتھ سے چلی گئی تھی۔
دل چاہا کہ در و دیوار سے لپٹ لپٹ کر آنسو بہاؤں۔ اور اسی وقت اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔ خوشی کی جستجو دراصل غم ہے ۔خوشی کو چھوڑ دے تم بھی نہ ہوگا ۔“ کلیجے میں ٹھنڈک کی پڑ گئی۔نفیسہ نہیں ملتی ناسہی اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ میں کیوں ایک روگ پال کر بیٹھ جاؤں ۔خوشی کو چھوڑ دے۔اور میں نے خوشی کو چھوڑ دیا۔ میں نے نفیسہ کو فون کر کے مطلع کر دیا تھا کہ میں زندگی کی راہ میں اس کا ہم سفر نہیں بن سکوں گا۔ وہ کچھ دیر کی بک بک کے بعد خاموش ہوگئی۔شاید اسے بھی احساس ہوگیاتھا کہ اس کے باپ کا فیصلہ درست ہی تھا۔
اب زندگی کے کٹھن شب وروز میرے سامنے تھے۔ گھر میں کھانے کو بھی کچھ نہیں تھا۔ میں بھی بھی اپنا کھانا خود ہی بنالیا کرتا تھا۔ ورنہ عام طور پر سامنے والے ہوٹل سے جا کر کھا لیتا تھا- میں محلے کی دکان پر پہنچ گیا۔ دکان دار مجھے دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔ شاید اسے خیال آیا ہو کہ میں اس کا پچھلا قرض ادا کر نے آیا ہوں- تنویر بھائی, چاۓ تو چلے گی نا؟ اس نے پوچھا۔ بس دومنٹ میں آ جاۓ گی ۔ نہیں بھائی ، مجھے اس وقت چاۓ کی ضرورت نہیں ، میں نے کہا۔ ” مجھے تو بس دوکلو آٹا۔ ایک کلو چینی کھانےکا تیل دے دو ۔ ابھی لو۔ پچھلا حساب تو لے کر آۓ ہوتا ؟ نہیں بھائی، میں تو یہ بھی ادھار لے کر جاؤں گا۔ میں نے کہا۔
اچانک وہ بھڑک اٹھا۔ اس کی خوش اخلاقی ختم ہوگئی۔ رہنے دو بھائی رہنے دو۔ کمال ہے پچھلا قرض ادانہیں کیا اور چلے آرہے ہیں ادھار لینے ۔ اب کیا اس محلے میں بے وقوف بنانے کو ایک میں ہی رہ گیا ہوں۔ جاؤ بھائی کوئی اور دکان ڈھونڈو۔ اس کی بک بک سن کر بہت دکھ ہوا۔ سوچا تھا کہ سامان مل جاۓ گا تو دو چار وقتوں کے کھانے ایک ساتھ بنا کر رکھ لوں گا اچانک ایک بار پھر اطہر بھائی کا شعر یاد آ گیا۔
خوشی کی جستجو در اصل تم ہے۔ خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا ۔۔ میں نے خوشی چھوڑ دی اور کچھ لیے بغیر ہی واپس آ گیا۔ ہشاش بشاش کوئی غم نہیں تھا۔ دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ گھر کے دروازے ہی پر نیازی صاحب کھڑے ہوۓ دکھائی دے گئے۔ نیازی صاحب اپنی نوعیت کے ایک کمال انسان ہیں ۔ بہت خوش اخلاق اور بہت ہی شاہ خرچ ۔ انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ان کو دیکھ کر ایسالگا کہ خدا نے اس وقت فرشتہ بھیج دیا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ نیازی صاحب نے میرا کس کس موقع پر ساتھ دیا تھا۔ جس کوارٹر میں رہ رہا ہوں اس کا ایڈوانس بھی نیازی صاحب نے دیا تھا۔
میں ان سے جا کر لیٹ گیا۔ بھائی اچانک کیسے آگئے؟ میں نے پوچھا۔ وبس تنویر صاحب! تمہاری یاد آئی تو تم سے ملنے چلا آیا۔ انہوں نے کہا۔ ”ارے یہ تو میری خوش نصیبی ہے۔ آئیں اندر آئیں۔ ہم اندر آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے محسوس کیا کہ نیازی صاحب کچھ الجھے ہوئے تھے ۔ گھر میں اتنا چاۓ کا سامان تھا کہ دو چار کپ چاۓ بن سکتی تھی۔ میں نے انہیں چاۓ لا کر دی۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے کہا۔ تنویر صاحب, میں ایک عجیب کشمکش میں ہوں۔“ خیریت تو ہے، کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ ہا۔ یہ ظاہر خیریت ہے لیکن اپنے وجود میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔
کیسی ہلچل ؟ بھئی بات میں ہے کہ میں لوگوں کا ساتھ دیتارہا ہوں ۔ آج بھی اس ارادے سے گھر سے نکلا ہوں لیکن ایک عجیب بات ہے۔ وہ کیا؟ میرا دل دھڑکنے لگا۔ بات یہ ہے کہ کسی کی مدد یا کسی کے کام آجانا میری خوشی رہی ہے۔ میں احسان تو نہیں کہتا کیونکہ اس میں میری خوشی ہے لیکن ہوا یہ کہ جن کو میں نے اپنے طور پر خوشیاں دیں۔ انہوں نے غم دیے۔ ایک قول ہے کہ جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ میں خوشی کی جستجو میں رہتا تھا اور ایسی خوشی مجھے کسی کے کام آ کرہی ملتی تھی ۔ آج بھی گھر سے پچاس ہزار لے کر نکلا ہوں۔
“ ارے نیازی صاحب! یہ تو آپ کی بڑائی کی دلیل ہے۔ ورنہ اس زمانے میں کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ انہوں نے باتوں باتوں میں مجھے ایک شعر سنادیا۔“ واہ۔ یہ تو اچھی بات ہوئی ۔ویسے وہ شعر کیا تھا؟“ تنویر صاحب ۔ یقین کر یں کہ اس شعر کو سنتے ہی ایسا لگا کہ میرے سرسے سارے بوجھ اتر گئے ہوں۔ سمجھ میں آ گیا کہ میں کہاں بھٹک رہا ہوں ۔ ” واہ صاحب۔ پھر تو بہت مبارک شعر ہوا۔ مجھے بھی سنائیں۔ شعر ہے۔
خوشی کی جستجو دراصل غم ہے۔
خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔
ایک بار پھر وہ لعنتی شعر میرے سامنے آ گیا تھا۔ ایک بات میں آپ سے کہنے آیا ہوں۔ نیازی صاحب نے کہا۔ ہوسکتا ہے کہ میں نے اب تک آپ کا ساتھ دیا ہو لیکن اب میں کچھ بھی نہیں کر سکوں گا۔ کیونکہ اس شعر کا مفہوم سمجھ میں آ گیا ہے۔ ارے نیازی صاحب ۔ میں بوکھلا کر بولا ۔لعنت بھیجیں اس شعر پر ۔ آپ تو نیکی کیے جائیں ۔ نہیں تنویر صاحب۔ اب اس قسم کی کوئی نیکی میں نہیں کر سکوں گا ۔ اس انقلابی شعر نے میری سوچ بدل دی ہے۔ میں یہی کہنے حاضر ہوا تھا۔ دل چاہا کہ یا تو اپنا گلا گھونٹ لوں یا اس شاعر کوزہر دے دوں جس نے بی شعر کہا ہوگا۔
نیازی صاحب کچھ دیر بیٹھ کر اس شعر پر لیکچر دے کر روانہ ہو گئے اور میں اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرتا رہ گیا۔ خیر وہ دن تو کسی نہ کسی طرح گزار لیا۔شام کو بھوک نے جب بے تاب کیا تو میں اپنی خالہ کے پاس چلا گیا۔ وہ بھی اسی شہر میں اور میرے گھر سے کچھ فاصلے پر رہتی تھیں۔ وہ کباب بہت اچھےبناتی تھیں ۔ ان کے کباب کھا کر لطف آجا تا تھا۔ خالہ مجھے دیکھتے ہی خوش ہو گئیں ۔ ارے بیٹا تو بالکل صحیح وقت پر آیا۔ میں نے تیری پسند کے کباب بنائے ہیں۔“ کیا بات ہے خالہ آپ کی ۔ میں خوش ہو گیا خالہ ہو تو آپ جیسی ہو میں ایک طرف بیٹھ گیا۔
سوچ رہا تھا کہ کتنی دیر بعد کچھ کھانے کو ملے گا ۔ اس دوران وہی شعر میرے کان میں گونجنے لگا۔ ۔ خالہ میں نے آواز لگائی۔ خالہ میں جارہا ہوں۔ ایک کام یاد آ گیا ہے۔ ارےبیٹا کیاب تو کھا تا جا۔ انہیں خالہ پھر سہی اور میں اس مکان سے باہر آ گیا۔ باہر آتے ہی بھوک سے چکر سا آ گیا تھا ایک درخت کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کسی نے مجھے آواز دی۔ ارے تنویر صاحب کہاں کھڑے ہیں؟ کیسے میں اسلم صاحب؟” میں نے پوچھا۔ کیا بتاؤں ؟ دل میں کیسی ہلچل مچی ہوئی ہے ؟ خیریت تو ہے نا کیا ہوا؟ موصوف شاعر بھی تھے۔ میرے پاس آکر بولے۔
خدا کی ۔ اس وقت کچھ اور مانگ لیتا تو شاید بھی مل جاتا۔ قبولیت کی گھڑی تھی لیکن میں نے آپ کو مانگا اور آپ مل گئے ایک بہت زبردست غزل رات کو کہی ہے۔ ایک مشاعرے میں پڑھنی ہے۔ لیکن میرا یہ دستور ہے کہ مشاعرے سے پہلے میں اپنے کسی دوست کو سنا کر دار لے لیتا ہوں ۔ تا کہ کچھ ہو گیا ہو تو وہ اصلاح کر دہے ۔ ارے صاحب میں اس قابل کہاں ہوں۔ میں گھبرا کر بولا ۔ شعرزده یہ کیا بات کر دی۔ آپ جیسا باذوق اور کہاں لے گا۔ چلیں سامنے والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ کس مشکل زمین میں غزل کہی ہے۔
چلیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیا۔اب میں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ہوٹل میں لے آۓ ،انہوں نے دو چاۓ کے آرڈر کے ساتھ کچھ بسکٹ بھی منگوا لیے۔ اس وقت مجھے پیٹ میں کچھ سہارے کی شدید ضرورت بھی تھی۔ بسکٹ سامنے آئے اور اسی وقت وہ کم بخت شعر یاد آ گیا۔ اس وقت خالی پیٹ کچھ کھانا میرے لیے بہت ضروری ہو گیا تھا۔ ورنہ میں بے ہوش ہی ہو جاتا۔ لیکن پھر وہی شعر خوشی کو چھوڑ دے غم بھی نہ ہوگا۔ اس موقع پر بھی اس شعر نے میرا پیچھانہیں چھوڑا۔ لیں جناب۔“ اسلم صاحب نے بسکٹوں کی طرف اشارہ کیا۔
آپ کیوں یوں ہی بیٹھے ہیں؟“ نہیں اسلم صاحب۔ اس وقت کچھ نہیں لے سکوں گا۔ میرے پیٹ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔“ “اوہو۔ پیٹ میں گڑ بڑ ہے تو آپ کو چاۓ بھی نہیں پینی چاہیے۔ جی جی ہاں۔ میری جان نکلی جارہی تھی۔ انہوں نے ایک لمحہ انتظار کے بغیر ایک چائے کا آرڈر کینسل کر دیا اور خود چاۓ اور بسکٹ کھانےلگے ۔ جبکہ میرا یہ حال تھا کہ میں غم اور خوشی کے فلسفے میں پھنسا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور اپنی بے تکی غزل سنانے لگے۔ ایک تو غزل بے تکی۔ پھر اتنی طویل جیسے پوری اردو شاعری لکھ کر لے آۓ ہوں۔ میں کچھ دیر تو بہت حوصلے سے سنتا رہا۔
پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور میں بے ہوش ہو کر لڑھک گیا۔ ۔ اسلم صاحب مجھے پکار رہے تھے۔ کچھ اور آوازیں بھی تھیں۔ میرے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے جارہے تھے لیکن مجھے ہوش نہیں تھا۔ نہ جانے کتنی دیر بعد ہوش آیا ہوگا۔ میں ایک بستر پر لیٹا تھا۔ نقاہت تو تھی لیکن اتنی نہیں جتنی پہلے محسوس ہورہی تھی۔ میرے بستر کے آس پاس کچھ اور بستر بھی تھے۔ جن پر مریض لیٹے ہوۓ تھے۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر ایک مہربان صورت کی نرس میرے پاس آ گئی۔ اب کیسی طبیعت ہے؟ اس نے پوچھا۔ کون لایا ہے مجھے؟ تم کہیں بے ہوش ہو گئے تھے۔
لوگ اٹھا کر لائے لوگ لائے ہیں ؟ کمزوری کی وجہ سے یہ حال ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا بھی یہی خیال تھا۔ تم اب ٹھیک ہو تو جاسکتے ہو لیکن کس کمبخت کا دل تھا کی وہاں سے جائے اس لیے وہیں پڑا سوچتا رہا کہ اس طرح کیسے گزر بسر ہو گی – اچھا تھا کہ گاؤں میں ہی رہتا – ابّا کی بات مان لیتا اور آنسہ سے شادی کر لیتا – کیا ہواجو وہ میٹرک پاس تھی –
ابھی بھی کچھ نہ بگڑا تھا اس لیے ہسپتال سے نکل کر سیدھا پانچ سال بعد گھر پہنچا اور ابّا کے قدموں می سررکھ دیا – جوان بیٹے کو سینے سے لگانے میں دیر انہوں نے بھی نہیں کی تھی – ابھی تو کھڑی ٹیکسی کا کرایہ بھی ادا کرنا تھا اور امی کے ہاتھ کا بنا کھانا میز پر منتظر تھا – کیا ہے نا خالی شعرکہنے اور سننے سے پیٹ نہیں بھرتا – اب گھر میں سب کے ساتھ سکوں سے رہوں گا اور ابا کے ساتھ زمینوں پر جایا کروں گا – جوانی میں جاب کرنے اور خود سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا جنوں بھی ختم ہو گیا اور دوستوں کی مصیبت میں دوستی بھی دیکھ لی
Urdu stories for kids
ماں کا انتظار
صائمہ کے ساتھ میری ، بہت ہی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ وہ میری پیاری سہیلی تھی اس کا گھر ہمارے گھر سے چند قدم دور تھا- اس لئے ملاقات میں آسانی تھی ۔ اس کی ماں کو ہم آنٹی شیریں کہا کرتے تھے۔ وہ واقعی بے حد شیریں گفتار تھیں۔ مجھ سے بیٹی جیسا پیار کرتی تھیں، میں بھی ان کا ادب ماں سمجھ کر کرتی کیونکہ میری ماں بچپن ہی میں فوت ہو چکی تھیں ۔
میں ان کے پیار میں ممتا کی مٹھاس ڈھونڈا کرتی تھی۔ تب ہی اس گھرانے سے مجھے دلی لگاؤ تھا۔ صائمہ ایک اچھی لڑکی تھی۔ سب ہی اس سے پیار کرتے تھے- اس کے والد کی نوکری نزد یکی گاؤں میں تھی ۔ وہ کبھی کبھار شہر کا چکر لگاتے تھے۔ ہمارے شہر میں صرف ایک ہی کالج تھا۔ وہ دراصل بوائز کالج تھا، بعد میں لڑکیوں کو بھی داخلے کی جازت مل گئی، کیونکہ ہمارا شہر چھوٹا سا تھا اور یہاں ابھی تک لڑکیوں کے لئے علیحدہ کالج تعمیر نہیں ہوا تھا۔
صائمہ فرسٹ ایئر میں تھی اور پڑھائی میں بہت ہوشیار تھی۔ اس کو بڑی مشکل سے لڑکوں کے کالج میں داخلہ لینے کی اجازت ملی تھی، ورنہ گاؤں کے کہاں اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے حق میں ہوتے ہیں۔ سب ہی اس پر رشک کرتے ، اس کی ہم جولیاں اسے
خوش نصیب کہتیں کیونکہ وہ خود میٹرک کے بعد کالج جانے کی حسرت لے کر گھر بیٹھ گئی تھیں،جن میں اس کی اپنی بڑی بہن ثمرین بھی تھی، جو صرف میٹرک کر سکی تھی ، آگے پڑھنے کی اجازت نہ ملی، اس کی منگنی ہو چکی تھی اور جلد شادی ہونے والی تھی۔
ثمرین بہت خوبصورت تھی ، تب ہی آنا فانا رشتہ اور اب چند دنوں بعد شادی تھی۔ تیاریاں زور شور سے جاری تھیں، صائمہ بھی بہن کی شادی کے سلسلے کافی مصروف تھی ۔ دو دن رہ گئے تو وہ ہمارے گھر شادی کارڈ دینے آئی۔ آنٹی شیریں ساتھ آئی تھیں ۔ کہنے لگیں کہ ہم تمھیں لینے آئے ہیں۔
میری سوتیلی امی تھیں، ان سے پوچھا گیا۔ ہم بشری کو لے جائیں کیونکہ یہ شادی کے کاموں میں ہاتھ بٹائے گی ۔ امی نے انکار نہیں کیا۔ یوں میں دو دن کی چھٹی ے کر ان کے گھر چلی گئی ۔ کبھی بھی معمولی سی بات کسی بڑے سانحے کا سبب بن جاتی ہے اور زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اس دن کافی مہمان آئے ہوئے تھے کیونکہ شام کو بارات آنے والی تھی، ہم سب کام میں مصروف ے۔
سر کھجانے کی فرصت نہ تھی۔ اگلے روز وقت مقررہ پر بارات آگئی اور ہم لڑکیاں باراتیوں کو دیکھنے چھت پر پہنچ گئیں، میں بھی شوق دیدار میں گئی۔ بارات میں آئے ایک لڑکے پر نظر ٹہر گئی یہ خوبرو نوجوان تھا اور اس کا نام بدر منیر تھا، صائمہ کا کزن تھا۔ وہ آگے آگے تھا۔ میری نگاہیں بار بار اس کی طرف اٹھتی تھیں۔ اس نے بھی اس بات کو محسوس کر لیا اور اب وقفے وقفے سے اس کی نظریں بھی مجھے تلاش کرنے لگیں ۔
ایسا اکثر شادیوں میں ہوتا ہے کہ آپ کے دل کے کورے کاغذ پر کسی کی تصویر اچانک بن جاتی ہے، گھر آئی تو دل عجیب احساسات سے بھرا تھا۔ بار بار رہ رہ کر منیر کی صورت نگاہوں میں پھرتی تھی ، اس کا خیال آتا رہتا تھا۔ سوچتی تھی اے کاش ایک بار اور کہیں اس کو دیکھ پاؤں تو سجدہ شکر بجالاؤں۔ خدا نے دعا سن لی۔ کالج آئی تو وہ نظر آ گیا۔ وہ اسی کالج میں پڑھتا تھا لیکن کبھی میں نے اس پر دھیان نہیں دیا تھا۔ اچانک دیکھا تو دل خوشی سے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ وہ مجھے دیکھ چکا تھا اور اب میری طرف ہی آرہا تھا۔ آپ یہاں اس نے سوال کیا … میں فرسٹ ائیر میں ہوں اور آپ؟ میں یہاں انٹرمیں پڑھتا ہوں یہاں کبھی دیکھا تو نہیں بس اتفاق ہے، دیکھا ہوگا بھی تو دھیان نہیں دیا ہوگا۔
چلئے اب تو نہیں بھولیں گی بے اختیار اس کے منہ سے نکلا تو میرے لبوں سے بھی بے اختیار ہی یہ کلمات نکل گئے . کبھی نہیں. اس دن کے بعد ہم دونوں روز ملنے لگے۔ جب فری پیریڈ ہوتا میں اور منیر کینٹین میں اکھٹے کچھ کھاتے پیتے اور باتیں کرتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی پکی ہوتی گئی۔ وقت کیسے تیزی سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا۔ میں تھرڈ ایئر اور وہ فورتھ ایئر میں پہنچ گیا ۔ ہماری جدائی میں ایک سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا تھا کیونکہ منیر کے کالج چھوڑتے ہی یہ دن شروع ہو جانے تھے۔
جدائی کے موسم آنے سے پہلے ہم کو کچھ ایسا قدم اٹھانا تھا کہ ہم ایک ہو جائیں لیکن اس کے لئے گھر والوں کی رضامندی ضروری تھی۔ میری تو ماں بھی سوتیلی تھیں ۔ گھر والوں کو پسند سے آگاہ کرنا گویا اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لینے کے مترادف تھا۔ ہوتا یہ کہ امی ابو میرا کالج جانا بند کرا دیتے۔ میں گریجویشن سے محروم ہو جاتی- تب ہی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی تھی۔
مبادا لینے کے دینے نہ پڑ جائیں، تاہم میری شدید خواہش تھی کہ منیر میرا جیون ساتھی بنے ، اس کا بھی یہی ارمان تھا بلکہ وہ تو یہاں تک کہا کرتا تھا اگر تم سے شادی نہ ہوسکی تو یقین جانو کہ میں کچھ کھا کر مرجاؤں گا، کیونکہ میں تمہاری جدائی کا صدمہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتا۔ کالج سے آکر سب سے پہلے اسے فون کرتی کپڑے بدلتی اور کھانا کھاتی تھی۔ رات کو بھی گھنٹوں ہم فون پر باتیں کرتے، ہمارا دل باتیں کرنے سے بھرتا ہی نہیں تھا۔ ان دنوں جبکہ میرے تھر ڈایئر کے پرچے ہورہے تھے۔ ابو کے ایک رشتہ دار گاؤں سے آئے، مجھے دیکھا تو اپنے بیٹے کے لئے پسند کر لیا اور رشتے کی بات کی۔
ابو نے ہاں کر دی اور منگنی کی تاریخ بھی دے دی۔ جب یہ بات مجھے پتہ چلی تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں بہت پریشان ہوئی ۔ ناشتہ بھی نہ کیا اور کالج آتے ہی منیر کو ڈھونڈنے لگی تا کہ اپنی پریشانی سے آگاہ کروں دو پیریڈ بمشکل پڑھے، تیسرا پیریڈ خالی تھا۔ اس کا بھی خالی ہوتا تھا لہذا ہم کینٹین میں آگئے۔ میرے چہرے پر نظر پڑتے ہی پہلا سوال اس نے یہ کیا کہ بشری کیا بات ہے تم کیوں اداس ہو۔ بات میرے منہ سے نہ نکل رہی تھی۔ بڑی مشکل سے بتایا کہ اگلے ماہ منگنی ہونے والی ہے۔ والد صاحب نے رشتہ طے کر دیا ہے۔
تم کچھ کرو وہ بھی پریشان ہو گیا ۔ کہنے لگا اگر تم کہتی ہو تو اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیج دیتا ہوں ، وہ رشتہ طلب کرنے آجائیں گے جیسے بھی ہو، میں ان کو راضی کرلوں گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بے مراد واپس ہوں گے، ابو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ انہوں نے اپنے جس رشتہ دار کو زبان دے دی ہے، وہ ان کے بچپن کے دوست بھی ہیں، لہذا والد صاحب نہیں مانیں گے۔
امی سگی ہوتیں تو شاید میرے جذبات کا احساس کر کے ابو سے منوا لیتیں لیکن وہ بھی میرا ساتھ نہیں دیں گی۔ تو پھر تم ہی بتاؤ کہ آگے کیا صورت باقی رہ جاتی ا تم کیا سوچتی ہو؟ اس نے پوچھا اگر تم والدین کی پسند کو قبول کرتی ہو تو میں ہمیشہ کے لئے تمہارے رہتے سے ہٹ جاتا ہوں، پھر کبھی میں تمہاری راہ میں نہیں آؤں گا۔ میں مر تو جاؤں گی لیکن تمہارے سوا کسی اور کی دلہن بننا قبول نہیں ہے۔
میں نے روتے ہوئے قطعیت سے کہا۔ پھر تو ایک ہی راستہ ہے کہ ہم کسی بڑے شہر جا کر کورٹ میرج کر لیں اور تم گھر کو خیر باد کہہ دو اگر ایسا کر سکتی ہوتو میں زندگی کے آخری سانسوں تک تمہارا ساتھ نباہنے کو تیار ہوں۔ ٹھیک ہے، میں تمہارا ساتھ دوں گی
تم جب کہو کے میں گھر چھوڑ کر تمہارے ساتھ نکل چلوں گی لیکن جلد ایسا کرنا ہوگا کیونکہ منگنی کی رسم سے پہلے ہی میں تمہاری ہو جانا چاہتی ہوں اور کسی اور کے نام کی انگھوٹھی اپنی انگلی میں نہیں پہننا چاہتی۔ اچھی طرح سوچ لو کیونکہ مجھے تم جب بھی کہو گی تم کو لے چلوں گا۔ میرا گھر چھوڑنے کا مسئلہ اتنا گھمبیر نہیں ہے جتنا کہ تمہارا ہے۔ سوچ لیا ہے کسی کے ساتھ سسک سسک کر جینے سے بہتر ہے تمہارے ساتھ خوشیوں بھری زندگی گزاروں۔ یہ میرا حق ہے کیونکہ میری سانسیں میرا بدن میری زندگی میری اپنی ہے۔
تو کیوں میں اپنی روح کو کسی اور کے شکنجے میں دوں۔ صرف دوسروں کی خوشنودی کی خاطر … وہ قائل نہ بھی تھا تو میں نے اس کو قائل کر لیا اور پھر ہم نے کورٹ میرج کا پروگرام بنا لیا۔ دن اور وقت طے ہو گیا۔ اس نے کہا کہ رات کو دو بجے میں تمہارا انتظار کروں گا- تمہارے گھر کے پیچھے گلی میں آجاؤں گا۔ جب رات کے دس بج گئے میں بہت پریشان ہو گئی۔ سوچ رہی تھی کہ گھر والے سب سو جائیں تو میں کپڑے تبدیل کروں اور بیگ میں تھوڑا سا سامان ضرورت کا اور چند جوڑے کپڑے رکھ لوں، بارہ بجے تک سب ہی سو گئے۔ تب میں نے نہا کر کپڑے بدلے۔
بال خشک کئے پھر بیگ تیار کیا، بہت آہستہ آہستہ سارے کام کئے کہ کھٹکا نہ ہو اور نہ کسی کی آنکھ کھلے۔ مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے بیگ اٹھا کر میں گھر سے نکل آئی۔ دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی کہ کھٹکا نہ ہو جائے۔ گھر کا پچھلا دروازہ جو عقبی کی طرف کھلتا تھا اس کو کھلا ہی چھوڑ دیا۔ چند قدم آگے آئی تو منیر ایک خالی مکان کی دیوار سے لگا کھڑا تھا۔ اس کو دیکھ کر جان میں جان آگئی اور وہ بھی مجھے دیکھتے ہی تیزی سے میری طرف آیا۔
میرا بیگ ہاتھ میں لے لیا اور تھوڑا سا چلنے کے بعد ہم گلی کے نکڑ پر پہنچے، جہاں اس نے گاڑی کھڑی کر رکھی تھی، شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا اور ہم بحفاظت محلے سے نکل کر بڑی سڑک پر آگئے، اب ہمارا رخ لاہور کی طرف تھا۔ رات بھر سفر کے بعد صبح 10 بجے کے قریب ہم اب لاہور پہنچ گئے ۔ کافی تھکن ہورہی تھی لہذا منیر نے گاڑی ایک ہوٹل پر کھڑی کر دی اور ہم نے ہوٹل میں کمرہ کرائے پر لے لیا
تا کہ کچھ آرام کرلیں۔ منیر نے اپنا شناختی کارڈ جمع کرا دیا تھا۔ ہمیں ہوٹل میں کرائے کا کمرہ مل گیا۔ ہم تھکے ہوئے اور کچھ خوفزدہ بھی تھے یہاں پرسکون ماحول ملا۔ بستر پر لیٹتے ہی نیند آگئی، دو بجے تک بے خبر سوتے ہے۔ دوپہر کو نہا دھو کر کھانا منگوایا۔ کھانا کھا کر منیر لیٹ گئے تو میں نے سوال کیا کہ گھر سے تو آگئے ہیں۔ اب بتاؤ آگے کیا کرنا ہے کہا تھوڑی دیر سوچنے دو کہ کیا کرنا ہے۔
پہلے نکاح کا انتظام کیا جائے تا کہ ہمارا ساتھ جائز رہے۔ وہی تو سوچ رہا ہوں یہاں لاہور ہائی کورٹ میں میرا ایک دوست وکالت کرتا ہے۔ اس کے پاس جاتا ہوں اس سے بات کر کے پھر تم کو آکر کورٹ لے جاؤں گا اور نکاح ہوگا۔ گواہوں کا انتظام بھی شاید وہی کر دے گا لیکن اس سے پہلے ہمیں رہائش کا سوچنا ہے نکاح کے بعد کہاں جائیں گے۔ عمر بھر تو اس ہوٹل میں نہیں رہ سکتے ، زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ رہ سکیں ے۔
کوئی مکان کرایہ پر تلاش کرنا ہوگا، ابھی فورتھ ائیر کے پرچے دینے ہیں۔ یہ سارے مسئلے حل ہو جائیں گے لیکن والدین کو جب پتہ چلے گا کہ ہم نکل آئے ہیں، وہ ہم کو تلاش کریں گے اس کا کیا ہوگا ….. اس سوال پر منیر نے متفکر ہو کر کہا ہاں یہ زیادہ سنگین مسئلہ ہے، مجھ پر پولیس کیس بھی بن سکتا ہے اور وہ اغوا کا پرچہ درج کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بھی نہیں بتایا ہے یقیناً ان کو پولیس گرفتار کرے گی ، مشکلات کا سامنا انہیں کرنا پڑے گا۔ یہ باتیں ہم ڈسکس کر رہے تھے اور پریشان ہو رہے تھے کہ گھر سے قدم نکالتے وقت تو ایسا کچھ سوچا نہیں تھا اور اب یہ باتیں سوچ رہے تھے۔
اس وقت آنکھوں پرعشق کی پٹی بندھی ہوئی تھی ، معاشرتی حقائق اور مشکلات ذہن میں ہی نہیں آئے تھے اور یہ حقیقی عفریت منہ پھاڑے سامنے کھڑے تھے۔ منیر نے کہا میں آصف وکیل کے پاس جاتا ہوں اور کورٹ میرج کی بات کرتا ہوں، دیکھوں وہ کیا ٹائم دیتا ہے، پھر تم کو لے چلوں گا تم ہوٹل کے کمرے کو اندر سے لاک کر لینا جب تک کہ میں نہ آؤں دروازہ بجے بھی تو مت کھولنا۔ میں مینجر کو بتا دوں گا اور دو چار گھنٹے تک آجاؤں گا گھبرانا نہیں۔ یہ کر وہ چلا گیا اور میں اس کا انتظار کرنے لگی۔ کمرے میں ٹی وی رکھا تھا، اس کو آن کیا اور دل بہلانے لگی۔
شام کو منیر لوٹ آیا۔ بتایا کہ آصف مل گیا ہے۔ کل کاغذات ٹائپ ہوں گے اور گواہوں کا انتظام ہو گا، پھر تم کو لے جاؤں گا کیونکہ کورٹ میں میرا بیان بھی قلمبند ہوگا۔ اگلے روز وہ صبح ہی چلا گیا اور پھر صبح سے شام ہو گئی منیر نہ لوٹا، میرا جی گھبرا رہا تھا۔ بار بار گھڑی دیکھتی تھی-
لیکن وقت جیسے تھم گیا تھا۔ ٹی وی آن کیا تو ایک ہولناک خبر سنی کہ ہائیکورٹ کی بلڈنگ کے قریب ہی خود کش دھماکا ہو گیا تھا۔ بہت سے پولیس والے اور راہگیر مر گئے اور بہت سے زخمی ہوئے تھے ، یہ خبر سنتے ہی کلیجہ تھام لیا کیونکہ منیر بھی تو ادھر گیا ہوا تھا۔ شام سے رات ہو گئی۔ وہ نہیں آیا۔ خدا جانتا ہے کہ وہ رات کیسے گزاری۔ پل بھر کو آنکھ نہ لگی۔ شب بھر منیر کی خیر و سلامتی کی دعا کرتی رہی۔
رات کا کھانا بھی نہ کھایا۔ بیرے نے ایک بار در بجایا مگر میں نے کھولا اور نہ جواب دیا تو وہ لوٹ گیا۔ صبح ہوئی اور منیر نہیں آیا تو میں سمجھ گئی کہ کچھ ہو چکا ہے۔ دوپہر کو منیجر نے فون کیا۔ ڈرتے ڈرتے میں نے ریسیور اٹھایا۔ اس نے بتایا کہ منیر صاحب شدید زخمی تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی ٹانگیں اڑ گئی تھیں۔ اسپتال میں ان کو ہوش نہیں آسکا وہ چل بسے ہیں اور ان کی جیب سے ہمارے ہوٹل کا کارڈ ملا تو اسپتال والوں نے فون کیا ہے۔ آپ ان کے گھر والوں کا پتہ دیں۔ میں نے منیر کے والد کا نمبر لکھوادیا اور منیجر سے کہا کہ ان کو میرا مت بتائے گا کیونکہ ہم گھر والوں سے چوری چھپے نکلے تھے-
اور وہ کورٹ میں کورٹ میرج کے سلسلے میں اپنے ایک وکیل دوست سے ملنے گئے تھے- بدنصیبی سے سانحے کی زد میں آگئے۔ ایسا کہتے ہوئے میں رورہی تھی ۔ تب منیجر نے کہا گھبراؤ نہیں مجھ کو اپنا بھائی سمجھو اور جہاں کہو میں پہنچانے کا انتظام کر دیتا ہوں، البتہ سامان آپ ۔ ساتھ نہیں لے جاسکتیں یہ ہمیں منیر صاحب کے وارثوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں تھوڑی دیر میں سوچ کر بتاتی ہوں۔
میجر پر مجھے اعتبار نہ تھا، یقینا وہ مجھ کو پولیس کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ وہ محض مجھ کوتسلی دے رہا ہے تب ہی میں نے اپنی دانست میں چالاکی سے کام لیا۔ بیرے کو بلا کر دو ہزار روپے دیئے اور کہا کہ تم میرے بھائی ہو۔ کسی طرح مجھے یہاں سے نکالو لیکن اس طرح کے منیجر کو خبر نہ ہو بیرے نے کہا دو ہزار نہیں اگر پانچ ہزار دو گی تو تمہیں یہاں سے ایسے نکالوں گا کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی، ورنہ پولیس ابھی یہاں پہنچ جائے گی یہ دشوار کام ہے۔ میری نوکری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس وقت میں بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔
گھر والوں سے خوفزدہ تھی کہ کچھ نہ سوچا اوپر سے پولیس کا ڈر تھا کہ منیجر ضرور کوئی ایسی کارروائی کرنے میں لگا ہے کہ چند لمحوں بعد میں گرفت میں آجاؤں گی۔ حالانکہ بم دھماکے میں جاں بحق ہونا منیر کے لئے تو ایک حادثاتی سانحہ تھا-
مگر میرا اس کے ساتھ گھر سے بھاگ آنا جرم ہی گردانا جاتا۔ پس میں نے پانچ ہزار بیرے کو دیئے اور اس نے مجھ کو ہوٹل سے باہر جانے کا دوسرا راستہ دکھا دیا۔ جب میں پہلی سیڑھی سے باہر آئی تو کسی نے نہیں دیکھا۔ وہاں ٹیکسی کھڑی تھی بیرے نے مجھ کو اس میں بیٹھ جانے کا اشارہ کر کے کہا کہ یہ تم کو میرے گھر لے جائے گی ، وہاں جا کر آرام سے بیٹھ جانا اور میں ڈیوٹی ختم کر کے آجاؤں گا، پھر تم جہاں کہو گی تم کو پہنچا دوں گا۔ منیر کا سامان میں نے ہوٹل میں رہنے دیا تھا۔
صرف اپنا بیگ جس میں میرے کپڑے نقدی اور کچھ زیورات تھے ساتھ لیا۔ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے بیرے کے گھر کے دروازے پر اتارا شاید وہ اس کو جانتا تھا۔ بیرے کا نام افتخار تھا اور یہ ٹھیک آدمی نہیں تھا۔ ہوٹل میں جو مرد عیاشی کے لئے آکر ٹھہرتے تھے یہ ان کو غلط قسم کی تفریح مہیا کرنے کا ذریعہ تھا لہذا اس کا رابطہ اس بازار سے بھی رہتا تھا۔ افتخار رات کو آ گیا۔ اس کے گھر میں خواتین نہیں تھیں اکیلا ہی رہتا تھا۔ آتے ہی اس نے ایک عورت کو فون کیا ۔ تھوڑی دیر میں وہ عورت آئی دونوں نے کچھ دیر تک دوسرے کمرے میں گفت و شنید کی پھر بولا بشری بی بی یہ میری خالہ ہیں، قریب ہی رہتی ہیں تم ان کے گھر چلی جاؤ کیونکہ میں یہاں اکیلا رہتا ہوں لہذا تمہارا یہاں رہنا مناسب نہیں ہے۔
یہ تم کو کل یہاں پہنچا دیں گی۔ چاہو تو اپنا سامان رہنے دو یا ساتھ لے جاؤ خالہ نے کہا ان کا سامان یہیں رہنے دو کل میں منگوالوں گی ، ابھی رات ہو رہی ہے اور ہم دونوں عور تیں ٹیکسی میں جائیں گی سامان لے جانا ٹھیک نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان بیگ میں زیور وغیرہ یا کوئی قیمتی سامان بھی ہو۔ میں منیر کی ہلاکت کے صدمے سے نیم جان تھی- اوپر سے خالہ کی ہمدردانہ باتیں اور بار بار گلے لگا کر کہتی تھیں مت رو میری بچی رونا نہیں۔ مجھے ماں سمجھو۔ جیسا کہو گی ویسا ہی ہوگا ۔ بھروسہ رکھو۔ کل تک تجھے تیرے گھر پہنچا دوں گی۔
اس شاطر عورت نے میرا سامان افتخار کے حوالے کیا اور مجھے ٹیکسی میں بٹھا کر اس جگہ لے آئی جس کو بازار حسن کہا جاتا ہے، میں جب یہاں آئی اور ماحول کا اندازہ ہوا تو ہکا بکا رہ گئی۔ منیر کے مرنے کا غم بھی بھول گئی ، سامنے اپنی عزت کی موت نظر آرہی تھی، اس جگہ آنے سے تو مر جانا کیا برا تھا، کاش میں منیر کے ساتھ ہی بم دھماکے میں اڑ جاتی۔
میں تھر تھر کانپ رہی تھی۔ ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے ۔ عورت کے کوٹھے پر لوگ آگئے تھے۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں کہ ان میں ایک پولیس افسر کے ساتھ میرا کزن منصب خان بھی تھا۔ منصب کو دیکھ کر سمجھ میں نہ آرہا تھا کہ رویؤں یا ہنسوں۔ میں ہمت کر کے پردہ ہٹا کر اس کی طرف دوڑی اور اس کے پاس جا کر رونے لگی وہ بھی مجھے کو دیکھ کر حیران پریشان ہو گیا تو میں نے کہا۔
منصب میں رستہ بھول گئی تھی اور یہ لوگ دھوکے سے یہاں لائے ہیں خدا کے لئے مجھے یہاں سے لے چلو۔ کب لائے تھے یہ تم کو ؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے، میں نے جواب دیا۔ اچھا فکر نہ کرو اس نے اپنے پولیس آفیسر دوست سے کچھ کہا اور اس نے بالا خانے کی مالکہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ میں نے دیکھا عورت خوفزدہ ہوگئی۔
اس نے ہاتھ باندھے اور پھر منصب سے کہا کہ بے شک اس کو لے جاؤ کیونکہ ابھی میں نے اس کے پیسے نہیں دیئے، اصل مجرم ہوٹل کا بیرا افتخار ہے، اس کا سامان بھی اسی کے پاس ہے، وہی اسے فروخت کرنے لایا تھا۔ منصب میری سوتیلی والدہ کا بھانجا تھا۔ وہ مجھے ساتھ لے آیا اور اپنے دوست پولیس والے سے کہا کہ یہ میری خالہ کی بیٹی ہے، اس لئے بات نہیں نکلنی چاہئے ، ورنہ خاندان کی بدنامی ہوگی ۔ غلطی سے ان بد معاشوں کے ہاتھ چڑھ گئی۔
شکر ہے ہم یہاں بر وقت آگئے۔ بہر حال میں صبح ہی اس کو گھر لے جاؤں گا تم افتخار سے اس کا بیگ برآمد کراؤ جس میں اس کا شناختی کارڈ، زیور اور نقد رقم ہے۔ وہ رات میں نے منصب کے ساتھ گزاری۔ گرچہ میرا دل منیر کے لئے دکھ سے بھرا ہوا تھا مگر میں نے منصب پر یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ مجھ کو منیر کا دکھ ہے اور میں اس کے لئے رورہی ہوں۔ گناہ منیر نے میرے ساتھ نہیں کیا کیونکہ وہ نکاح کے بعد جائز رشتے سے ملنا چاہتا تھا ، تا کہ خدا ہم سے خوش ہو مگر موت نے اس کو مہلت نہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو گناہ سے بچا لیا۔
وہ ایک سچا انسان تھا مگر منصب میں خود پر قابو پانے کا حوصلہ نہ تھا، اس لئے مجھے اس بازار کی گندگی بننے سے تو بچا لیا تھا مگر خود اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، جب میں زار و قطار روئی تو وہ شرمندہ ہوا اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے سے شادی کرے گا اور معافی بھی مانگی مگر اب کیا فائدہ تھا لوٹ لینے کے بعد کوئی معافی مانگے تو دامن تار تار ہی رہتا ہے۔
اگلے دن منصب مجھے گھر لے آیا اور میرے والدین کو سمجھایا کہ اس کو کچھ مت کہنا جوغلطی ہوئی ہے اس کو معاف کر دیجئے اور شکر کیجئے کہ اس کی عزت اس بازار میں نیلام ہونے سے بچ گئی ، اس روز اگر میں اپنے اس پولیس آفیسر کے ساتھ وہاں نہ جاتا تو نجانے اس پر کیا قیامت گزر جاتی۔ اللہ کا کرم ہوا کہ میرا وہاں جانا آپ کی عزت کے تحفظ کا سبب بن گیا اور شاید منیر کی موت بھی اسی طرح لکھی تھی کہ وہ بھیانک حادثے میں اس طرح دنیا سے چلا گیا۔
یہ حقیقت تو بہرحال سب کو پتہ چل چکی تھی کہ میں منیر کے ساتھ بھاگی تھی مگر موت اس کو لے جا چکی تھی لہذا کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ منصب کے سمجھانے پر امی ابو خاموش ہو گئے ۔ اگرچہ مجھ سے ناراض بہت تھے اور بات بھی نہ کرتے تھے مگر مار پیٹ سے کام نہیں لیا کہ اس میں ان کی بدنامی تھی ، پھر منصب نے ابو کو یقین دلا دیا تھا کہ فکر مت کریں، میں آپ کی بیٹی سے شادی کروں گا۔
اب کوئی اس سے بدسلوکی نہ کرے اور نہ گھر سے بھاگنے کا طعنہ دے۔ منصب ہر دوسرے تیسرے دن مجھے فون کرتا تھا اور میری خیریت دریافت کرتا تھا۔ کبھی کبھی میں بھی فون کرتی کہ میری اندھیری زندگی کی اب وہ ایک ہی اس تھا۔
ایک روز اس کا فون نہ آیا اور میں نے بھی فون نہیں کیا تو اگلے دن اس نے فون کر کے کہا کہ بشری رات تم نے بھی فون نہیں کیا کیوں؟ میں انتظار کرتا رہا۔ مہمان آئے ہوئے تھے جس کی وجہ سے میں نے فون کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے بہانہ کیا۔ تم کو پتا ہے جس رات میں تم سے بات نہیں کرتا ہے کہ اس شب یہ کالی رین گزرنے کا نام نہیں لیتی اور تم ہو کہ بات نہیں سمجھتیں ، میں سمجھتیں ہوں مگر مجبوری ہے۔ اچھا میں تمہارے شہر آرہا ہوں ، صرف تم کو دیکھنے چھپ نہ جانا۔ سامنے ضرور آنا اچھا کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
دل گھبرانے لگا – بے شک منصب کو مجھ سے پیار ہو گیا تھا مگر میں جانتی تھی کہ اس کی منگنی اس کے ماموں کی بیٹی آسیہ سے ہو چکی ہے اور مجھے سے شادی کرنے کے لئے اس کو اس رشتے سے بغاوت کرنی پڑے گی جو میری امی کو کسی صورت گوارہ نہ تھا۔ منصب گھر آتا تو بھی امی کے سامنے ہم بات نہ کرتے کہ ماں اپنے بھانجے کا مجھ سے گھلنا ملنا سخت نا پسند کرتیں ، تاہم فون پر اس نے کہا کہ صرف تم سے ملنے آرہا ہوں۔ وہ یہاں اپنے گھر والوں سے ملنے آ رہا تھا، پھر اس نے مجھ سے ملنے آنا تھا مگر گھر پر بات نہیں ہو سکتی تھی لہذا اس نے یہاں آکر فون کیا کہ پھر تم فرح کے گھر آجاؤ وہاں بات کر لیتے ہیں۔
فرح اس کے چچا کی بیٹی تھی اور ان کا گھر قریب ہی تھا۔ مجبوراً میں نے امی سے کہا کہ فرح بیمار ہے، کیا میں پوچھنے چلی جاؤں وہ بولیں ہرگز نہیں۔ شام ہونے والی ہے یہ کون سا وقت ہے فرح کے ہاں جانے کا تمہارے ابا ناراض ہوں گے۔ میری بہن نے طرفداری کی ۔امی جانے دونا بھیا چھوڑ آئے گا۔ ہر گز نہیں۔
آج کل جوان لڑکی کو بھیجنے کا زمانہ نہیں لوگ پہلے ہی کیا کم باتیں بناتے ہیں۔ اتنے میں فرح کے گھر سے اس کا چھوٹا بھائی آگیا کہ فرح باجی کو اسپتال لے جارہے ہیں ، تب امی کا دل پسیجا، بولیں تم لوگ گھر پر رہو۔ میں خود جاتی ہوں وہاں۔ اسی دم وہ فرح کے گھر چلی گئیں۔ ان کے جانے کی دیر تھی کہ منصب گھر آگیا، دراصل اس نے فرح کے بھائی کو بھیجا تھا۔ امی گھر پر نہ تھیں ۔ اب ہم بات کر سکتے تھے، تب اس نے کہا بشری ۔ تم ماں کو راضی کر لو کیونکہ تمہیں پتہ ہے کہ میری ماں آسیہ کے علاوہ کسی کو بہو نہ بنائیں گی وہ ضد کی پکی ہیں۔
یہ ناممکن ہے تمہاری خالہ میری سگی ماں نہیں ہے، تم جانتے ہو تم ان کو راضی کر سکتے ہو تو کوشش کر کے دیکھو میں ان کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ۔ اچھا بتاؤ اگر ہماری شادی پر کوئی راضی نہ ہو تو کیا تم مجھ سے کورٹ میرج کر لو گی ۔ اس کی بات سن کر مجھ کو ٹھنڈا پسینہ آگیا کیا کہہ رہے ہو۔ منصب ایک بار پہلے بھی میں اس راہ گزر چکی ہوں اور رستہ بھول چکی ہوں تم نہ ملتے تو تباہی میرا مقدر تھی لیکن اس بار ایسا نہ ہوگا، میں جو تمہارے ساتھ ہوں ۔
تم خود اپنے اور میرے گھر والوں سے بات کرو گے منصب، میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گی … کوشش تو کرو اس نے کہا آگے مقدر کی بات ہے لیکن کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ یہ ناممکن ہے ہاں اگر تم میرے والد صاحب کو راضی کر لو تب شاید یہ ممکن ہو جائے۔ منصب نے گھر جا کر اپنی والدہ سے بات کی۔ اس کی ماں نے میری ماں سے کہا امی نے اس وقت مجھ پر غصہ اتارنا شروع کر دیا۔ کہ کیا تجھے اسی ان کے لئے پروان چڑھایا تھا۔ اب جو تیری خالہ کہہ رہی تھی مجھے تو سن کر شرم آرہی تھی تو مر کیوں نہ گئی بے حیا ، پہلے ایک کے ساتھ بھاگی، اب دوسرے کے ساتھ دوستی کرلی ہے۔ منصب میرا خون ہے۔
کیا وہ تھوکا چاٹے گا؟ تم نے ڈورے ڈالے بھی تو کس پر؟ میرے بھائی کی بیٹی آسیہ کے حق پر ڈاکہ ڈالنے جارہی ہے بے غیرت ۔ تو نے ہمیں ڈس لیا ہے، ہم تو برباد ہو گئے ہیں۔ اگلے دن خالہ آگئیں بولیں میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ بشری کے سوا کسی سے شادی نہ کرے گا۔ جان دے دے گا ۔ کیسی بے حیا ہے تمہاری لڑکی کہ میرا بیٹا اپنے منہ سے نام لے رہا ہے۔
میں رونے لگئی امی ان کی باتیں مت سنیں، ان کا بیٹا خود میرے پاس آیا تھا۔ میں نہیں گئی تھی ان کے بیٹے کے پاس. بکواس بند کر بے حیا کچھ شرم کر لڑکے ایسی لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے جو گھر سے بھاگ چکی ہوں ۔ اس نے تم سے شادی کر بھی لی تو کچھ دن بعد چھوڑ دے گا۔ وہ ہمارا خون ہے، میں اس کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ امی نے مجھ کو اتنی سنائیں کہ میں خون کے آنسو رونے لگی۔
آخر کار کمرے میں بند ہوئی ۔ تب ہی فون کی گھنٹی بجی۔ منصب کا فون تھا۔ اس نے کہا سیدھی انگلیوں سے گھی نہیں نکلے گا، ہمارے بزرگ یوں ماننے والے نہیں ہیں۔ میں کسی قیمت آسیہ سے شادی نہیں کروں گا اور تم اپنی عصمت کا گوہر میرے حوالے کر چکی ہو تو بہتر ہے کہ شادی بھی مجھ سے کر لو۔ کیسے کروں کوئی مانتا نہیں روتے ہوئے میں نے کہا-
ایسے ہی جیسے منیر کے ساتھ بھاگ کر شادی کرنے چلی گئی تھی- میرے لئے کیا گھر کی دہلیز پار نہیں کر سکتیں جبکہ میں نے تمہارے ماضی کو ایشو نہیں بنایا ہے۔ تم کو واپس گھر پہنچایا ہے۔ کیا اب بھی میری محبت کا اعتبار نہیں ہے؟ ہمت کرو اور نکلو گھر سے ، ہم کراچی جا کر کورٹ میرج کر لیں گے۔
غرض وہ مجھے اکساتا رہا اور مجھے ماں کی باتیں یاد آرہی تھیں ، تب بن سوچے سمجھے میں نے کہہ دیا کہ میں آجاؤں کی جگہ بتا دو۔ اس نے وقت اور جگہ بتا دی اور کہا کہ میں لینے آجاؤں گا گھبرانا نہیں آسیہ سے چھٹکارا پانے کا بس یہی ایک طریقہ ہے- میرے دل میں بھی سوتیلی ماں کے خلاف انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی کیونکہ انہوں نے مجھے بہت ستایا اور رلایا تھا ، بہت گندی گندی گالیوں سے نوازا تھا۔ بے عزتی اور اہانت کرنے میں کوئی کسرنہ چھوڑی تھی۔
رات کو میں نکل گئی ، گرچہ ضمیر ملامت کرتا رہا سارا دن یہی سوچتی جاتی تھی کہ جو میں کر رہی ہوں ٹھیک ہے۔ جب گاڑی کراچی کے اسٹیشن پر رکی میں نے ادھر ادھر دیکھا منصب مجھے کہیں دکھائی نہ دیا۔ دو گھنٹے میں پلیٹ فارم پر کھڑی اس کی راہ تکتی رہی ادھر اُدھر ٹہلتی رہی۔ دو نوجوان کافی دیر سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرے قریب آگئے اور آنکھ مار کر بولے ہمارے ساتھ چلو گی میں گھبرا گئی۔ پسینے پسینے ہوگئی تو وہ قہقہے لگانے لگے کہ یار وہ نہیں آیا جس کے لئے یہ بھاگ کر آئی ہے، ایسا ہی لگتا دوسرے نے کہا تو چلے گی ہمارے ساتھ ہاہاہا ان کے قہقہے میرا پیچھا کرنے لگے۔
شام ہونے والی تھی اور لوگ عجیب عجیب نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ کافی دیر ہو چکی تھی، میں نے سوچا شاید اب وہ نہیں آئے گا۔ زمانے کی تو عادت ہے دھوکا دینے کی۔ پھر بھی دل یہی کہتا تھا۔ نہیں وہ ایسا نہیں ہے۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اگر منصب نہیں آیا تو مجھے واپس جانا پڑے گا مگر میں کس منہ سے گھر والوں کا سامنا کروں گی، خاص طور پر اپنے والد کو کیا منہ دکھاؤں گی کہ جنہوں نے پہلی غلطی پر مجھے معاف کر دیا تھا۔
حالانکہ ان کی عزت نیلام ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔ ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ عقب میں قدموں کی آہٹ ہوئی۔ ڈرتے ڈرتے مڑ کر دیکھا تو میری سانس رک گئی منصب تھا مگر ساتھ ابو بھی تھے ابو کو دیکھ کر جان نکل گئی۔ اب ابو اور منصب آگے آگے تھے اور میں ایک مردہ لاش کی طرح ان پیچھے پیچھے چل رہی تھی، آخر ہم ایک ہوٹل آگئے۔ مجھے وہاں چھوڑ کر ابو اور منصب چلے گئے ۔ نکاح کا انتظام کرنے کے لئے ۔ اگلے دن میرا نکاح تھا ابو نے خود میرا نکاح منصب سے کرایا اور مجھے اس کے حوالے کر کے خود گھر واپس چلے گئے۔
انہوں نے گھرجا کر امی کو کچھ نہ بتایا کہ کیا ہوا ہے۔ جانتے تھے کہ امی نہ صرف ہنگامہ برپا کر دیں گی بلکہ ابو سے اس عمر میں طلاق مانگ لیں گی کہ میں نے ان کی بھابھی کے ہونے والے سرتاج کو اپنے سر پر سجا لیا تھا۔ کافی دن بعد ایک روز دروازہ بجا۔ میں نے کھولا سامنے بھائی کھڑا تھا مجھے دھکا دیا۔ میں گرتے کرتے بچی۔
منصب نے سنبھال لیا۔ بھائی چلا رہا تھا کہ میں تجھے زندہ نہ چھوڑوں گا، تیری لاش لے کر جاؤں گا۔ منصب نے اس کو روکنا چاہا۔ سمجھانا چاہا مگر وہ نہ رکا ۔ تب منصب نے میرے بھائی کو بتا دیا کہ اس کا اور میرا بندھن آپ کے والد صاحب کی رضامندی سے ہوا ہے اور تصویر اس کو دکھا دی- جس میں میرا اور منصب کا نکاح ہو رہا تھا اور ابو بھی اس تصویر میں موجود تھے۔ بھائی کا غصہ تھم گیا۔ منصب نے کہا۔
یہ سب تمہارے والد صاحب کی منصوبہ بندی سے ہوا ہے۔کیونکہ تمہاری والدہ کسی صورت نہ مانتی تھیں تو ایسا کرنا پڑا- بھائی خاموش ہو کر لوٹ گیا لیکن پھر کبھی میرے دروازے پر نہیں آیا۔ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ابو فوت ہو گئے ۔ امی کو اصل حقیقیت پتہ چل چکی ہے۔ میں شب و روز ان کا انتظار کرتی ہوں لیکن وہ نہیں آتیں شاید انہوں نے میری صورت نہ دیکھنے کی قسم کھالی ہے
Urdu stories for kids
علی انگوٹھا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جوڑے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جسے وہ علی کہتے تھے۔
بچہ اپنے والدین کے لیے خلاف توقع تھا، کیونکہ جب وہ پیدا ہوا تو وہ انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا
ماں اور باپ دونوں شروع میں بہت پریشان تھے، لیکن پھر انہوں نے خود سوچا،
‘ یہی ہمارے لیے خدا کی دین ہے، اور ایک دن ہمارا بیٹا بڑا، مضبوط لڑکا بنے گا۔’
لیکن سال گزرتے گئے اور علی بالکل نہیں بڑھا۔ وہ انگوٹھے کی طرح چھوٹا رہ گیا۔
ہر شام رات کے کھانے پر ماں اپنے بیٹے کے لیے میز پر جگہ رکھ دیتی۔
وہ اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پلیٹ رکھ دیتی اور اس میں ایک چائے کا چمچ سوپ سے بھرتی۔
علی کے پاس ایک چھوٹا سا پیالہ بھی تھا جسے اس کی ماں پانی کے ایک قطرے سے بھر دیا کرتی تھی۔
گھر والے جب گھر پر ہوتے تھے تو سب ٹھیک تھا لیکن ماں باپ اپنے بیٹے کی وجہ سے شرمندہ تھے تھی، یہ سوچ کر کہ اگر کسی نے اسے دیکھا تو وہ نوجوان لڑکے کو چھیڑیں گے۔ اس لیے انہوں نے اسے گھر کے اندر ہمیشہ نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا تھا۔
مزید کئی سال گزر گئے اور بالآخر علی نے اپنی بیسویں سالگرہ منائی۔
وہ ابھی بھی انگوٹھے کی طرح چھوٹا تھا، لیکن اس کی آواز بہت گہری اور بہت بلند ہو چکی تھی۔
درحقیقت اگر کبھی کوئی ان کے بیٹے کو بولتے ہوئے سنتا تو وہ سمجھتا کہ یہ کسی بڑے آدمی کی آواز ہے۔
علی ایک بہت اداس نوجوان تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور اسے اپنا سارا وقت اپنے والدین کے گھر کے اندر چھپ کر گزارنا پڑتا تھا۔
ایک دن علی کے والد اگلے قصبے میں بازار جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ بوڑھے آدمی نے رات ہوٹل میں گزارنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ رات ہونے سے پہلے وہاں تککا اور واپسی کا سفر نہیں کر سکتے تھے۔
علی نے اپنے والد سے التجا کی کہ اسے سفر میں ساتھ لے جائیں، لیکن اس کے والد اس خیال سے بہت پریشان نظر آئے۔
اس نے کہا، ‘ہم نے آج تک آپ کو کبھی باہر نہیں نکالا اور مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اب ایسا کر سکتا ہوں۔’ ‘میں آپ کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں اور آپ کو دوسرے لوگوں سے کیسے چھپا سکتا ہوں؟
‘یہ آسان ہو جائے گا،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں جواب دیا۔ ‘آپ مجھے اپنی جیب میں رکھ سکتے ہیں اور کوئی نہیں جان سکے گا کہ میں وہاں ہوں۔ آپ کپڑے میں تھوڑا سا سوراخ کر سکتے ہیں تاکہ میں سانس لے سکوں اور میں دیکھ سکوں کہ کیا ہو رہا ہے اور دنیا کے تمام نئےنظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں۔’
علی کے والد نے محسوس کیا کہ علی گھر سے نکلنے کے خیال سے کتنا پرجوش تھا، اور اس وجہ سے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہ کہنا ناممکن پایا۔
بوڑھے آدمی نے اپنی قمیض کی جیب میں ایک بہت چھوٹا سوراخ کیا اور علی کو اندر چڑھنے میں مدد کی۔
ماں نے سفر کے لیے تھیلے حوالے کیے اور دونوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ پھر علی اور اس کے والد پڑوسی شہر کے بازار کی طرف روانہ ہوئے۔
سارا دن سفر کرنے کے بعد علی اور اس کے والد سڑک کے کنارے ہوٹل پہنچے۔
والد نے کہا، ‘ہم یہاں رات کے لیے ایک کمرہ حاصل کر لیں گے، اور کل ہم گھر واپس جانے سے پہلے صبح سویرے بازار جائیں گے۔’
‘میں یقین نہیں کر سکتا کہ مجھے ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے گا!’ علی نے کہا۔
نوجوان بہت پرجوش تھا کیونکہ اس نے اپنے سفر میں بہت کچھ دیکھا تھا اور وہ اپنے گھر کے علاوہ کہیں نہیں سویا تھا۔
علی کے والد نے ایک کمرے کے لیے ادائیگی کی اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے اپنا بیگ سیڑھیوں سے اوپر لے گئے۔
بوڑھے آدمی کے سامان کھولنے اور نہانے کے بعد، اور علی کو ابھی تک اپنی جیب میں چھپا کر، وہ اس امید کے ساتھ کھانے کے کمرے میں چلا گیا کہ شاید وہ اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے بھی کچھ کھانے کا سامان لے آئے۔
پھر کچھ بہت غیر متوقع ہوا۔ جیسے ہی تمام مہمان رات کے کھانے پر بیٹھے چوروں کا ایک گروہ ہوٹل میں داخل ہوا۔
بے رحم دکھائی دینے والے مردوں نے، جو کہ تین تھے، بندوقیں اٹھائیں اور حکم دیا کہ ہر مرد اور عورت اپنی رقم اور جو بھی قیمتی سامان ان کے پاس ہے، وہ حوالے کردیں۔
تمام مہمان بہت خوفزدہ تھے جن میں علی کے والد بھی شامل تھے، لیکن انہوں نے ایسا ہی کیا جیسا کہ انہیں کہا گیا تھا، اور اپنے بٹوے اور زیورات کو چوروں کو دینےکے لیے میزوں پر رکھنے لگے۔
اچانک کہیں سے ایک بہت تیز اور بہت گہری آواز آئی۔
‘اپنی بندوقیں نیچے کرو!’ آواز نے حکم دیا. ‘میں وہاں آ رہا ہوں اور میں تمہیں پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے جا رہا ہوں۔’
کوئی نہیں جانتا تھا کہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ چوروں نے کھانے کے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی شخص تلاش نہ کر سکے۔
پھر آواز آئی، اس بار پہلے سے بھی اونچی آواز میں۔ ‘میں تم سے تمہاری شرارتوں کا بدلہ لوں گا۔ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ تم کئی سال جیل میں گزارو ۔’
چونکہ چور یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے، اس لیے انہوں نے خود کو باور کرایا کہ اس کا تعلق کسی بھوت سے ہے۔
اور اگر چوروں کو پولیس سے بھی زیادہ کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ بھوت تھے ۔
اچانک، چور اپنی بندوقیں چھوڑ کر ہوٹل سے بھاگے اور اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
اگرچہ مہمان خوش تھے کہ ڈاکو بھاگ گئے ہیں لیکن وہ بھی بھوتوں سے ڈر کر اپنے کمروں میں بھاگ کر چھپ جانا چاہتے تھے۔
‘فکر نہ کرو،’ علی کے والد نے کہا۔ ‘یہ کوئی بھوت نہیں ہے جو بات کر رہا ہے۔ یہ میرا بیٹا ہے۔’
اور اس کے ساتھ ہی بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تاکہ علی اس کے ہاتھ پر چڑھ جائے۔ پھر اس نے علی کو آہستہ سے میز پر بٹھایا تاکہ تمام مہمان ہیلو کہہ سکیں۔
‘مجھے یقین ہے کہ ڈاکو واپس نہیں آئیں گے،’ علی نے اپنی گہری، تیز آواز میں کہا، اس کے چہرے پر ان تمام مہم جوئیوں کی وجہ سے ایک بڑی مسکراہٹ تھی۔
مہمان ایک ایسے لڑکے سے ملنے کے لیے بہت حیران اور بہت متجسس تھے جو انگوٹھے سے بڑا نہیں تھا۔
لیکن سب سے بڑھ کر، وہ سب علی کے بہت شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں چوروں سے بچا لیا، اور انہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے والد سے کہا کہ انہیں اتنا بہادر بیٹا ملنے پر کتنا فخر ہوگا۔
صبح جب وہ بازار کے لیے ہوٹل سے نکلے تو علی کے والد نے اپنے چھوٹے بیٹے کو جیب سے نکال کر اپنے کندھے پر بٹھا لیا۔
ساری صبح بازار میں، اور پھر گھر جاتے ہوئے، بوڑھے آدمی کو راہگیروں سے علی کا تعارف کرانے کے لیے کئی بار رکنا پڑا۔ اور اس نے بہت فخر محسوس کیا اور سب کو بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے نے تینوں چوروں سے سب کو بچایا تھا۔
اس شام جب باپ بیٹا گھر پہنچے تو علی کی ماں بہت پریشان نظر آئیں کہ علی ان کے شوہر کے کندھے پر بیٹھا ہوا ہے۔
‘کیا ہوگا اگر کوئی اسے دیکھ لے؟’ اس نے اپنے شوہر سے پوچھا۔
لیکن بوڑھا آدمی مسکرایا اور اپنی بیوی کو سمجھایا کہ ان دونوں نے ہوٹل میں کس مہم جوئی کا تجربہ کیا تھا، اور علی نے کس طرح سب کو بچایا اور چوروں کو ڈرایا۔
‘اپنے بیٹے سے شرمندہ ہونا بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اتنے سالوں تک اسے گھر میں چھپا کر نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ ہمیں علی اور ان تمام چیزوں پر فخر کرنا چاہیے جو وہ کرنے کے قابل ہے۔’
علی کی ماں کو واقعی بہت فخر ہوا جب اس نے اپنے بیٹے کی بہادری کی داستان سنی، اور وعدہ کیا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھپائے گی یا پھر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کرے گی۔
اس دن کے بعد سے، علی انگوٹھے نے ہمیشہ اپنے والدین کے کندھوں پر سفر کیا ہے، وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اور اس نے بہت سے کام دیکھے اور کیے ہیں اور بہت سی مہم جوئیاں کی ہیں
Pingback: Moral stories for kids in urdu -
Pingback: Kids moral stories in urdu -
Pingback: Urdu short stories for kids -