Urdu stories love are rich narratives that explore the intricacies of human emotions and relationships.
Urdu stories love
محبت کے رشتے
کوئی چوتھی بار آ کر فاطمہ نے کھڑکی سے باہر جھانکا تھا, اس مرتبہ بھی بالکل ویسا ہی منظر تھا جیسا پہلے تھا, ہاں البتہ سامنے کے دو گھر چھوڑ کر تیسرے گھر کے اگے رش لگا دیکھ کر اسے تجسس ہوا, یا اللہ اب ادھر کیا ہو رہا ہے- دیکھوں تو, اور کرسی گھسیٹ کر دیکھنے کو کھڑی ہو گئی, درمیان میں ڈھیروں ساگ پھیلائے وہ سب ارد گرد گھیرا ڈالے بیٹھی تھی
کچھ انہوں نے پالک اور ساگ کے گٹھے بنا رکھے تھے اور دوسری انہیں کاٹتی جا رہی تھیں – اپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق اور خوشگپیوں میں مصروف عورتیں اسے ذرا اچھی نہ لگیں دیکھتے ہی دیکھتے چند منٹوں میں ساگ اور پالک کٹ گئی, تو نہ جانے وہ کتنی دیر ان کی بے فکری اور فارغ البالی پر کڑھتی رہی اگر اس کا چھ ماہ کا چھوٹا بچہ علی اٹھ کے رونے نہیں لگ جاتا
فاطمہ کا میکا اور سسرال دوسرے شہر میں تھے اور وہ خود بھی وہاں اپنے سسرال میں ہی رہ رہی تھی- سرمد کی جاب چونکہ ادھر تھی, اپنے ایک دوست کے ساتھ روم شیئر کر کے رہتا تھا, اور ہر ویک اینڈ پر گھر چلا جاتا- ابھی ایک ماہ پہلے ہی اس محلے میں گھر کرائے پر لے کر فاطمہ اور بچوں کو لے کر آ گیا تھا- علی سے بڑے تین سالہ امن کو بھی ادھر آ کر ہی سکول داخل کروایا تھا
گرچہ ابھی ان کے محلے میں کسی سے جان پہچان تو نہ تھی پھر بھی چند دنوں میں فاطمہ یہاں کی عورتوں اور بچوں سے اچھی خاصی بیزار ہو گئی- وجہ ہی کچھ ایسی تھی ,عورتیں دن چڑھے جو دھوپ سینکنے کو گھروں سے باہر نکلتی تو ساری دوپہر گلی میں ہی گزار دیتی- اپس میں خوشگپیاں کرتی سلائی سے لے کر سبزی کاٹنے اور مصالحہ پیسنے تک ان کے سارے کام گھر کے باہر گلی میں ہی انجام پاتے, جیسے ہی بچوں کے گھر واپس انے کا ٹائم ہوتا اندر چلی جاتی
اور پھر بچے شام کو سکول سے آ کر جب کھیلتے, تو خوب ہنگامہ رہتا ,جس سے فاطمہ کو خوب کوفت ہوتی ,ایک دن فاطمہ دوپہر میں بچوں کو سلانے جو لیٹی تو ساتھ میں اس کی خود بھی انکھ لگ گئی, ابھی چند ہی منٹ گزرے ہوں گے کہ باہر کی بیل سے اس کی انکھ کھل گئی ,ایسا لگتا تھا کوئی بیل پر ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول گیا ہے
خدایا خیر, لگتا ہے کوئی افت آگئی ہے, اس نے بھاگ کر دروازہ کھلا تو سامنے ایک مسکین صورت محلے کا بچہ کھڑا تھا, اور اسے دیکھتے ہی سلام کرنے لگا ,کیا مسئلہ ہے- کیوں اس طرح سے بیل دے رہے ہو, بچوں کی اس حرکت پر اسے بے پناہ غصہ آیا, پھر سلام کا جواب کہاں دینا تھا بلکہ اکھڑے ہوئے لہجے میں بولی, بھاگ جاؤ یہاں سے, کسی کو کوئی بال نہیں ملے گا
اور اگر دوبارہ بال کے لیے بیل بجائی تو تمہاری پٹائی لگا دوں گی- اور خبردار اپنے گھر کے اگے کھیلو کسی نے آئندہ میری بیل بجائی تو بہت بری طرح پیش آؤں گی- سوری انٹی اپ ہمیں آج بال دے دیں دوبارہ آپ ہماری بال آئے بھی تو واپس نہ کیجئے گا- بچے منتیں کرتے رہے مگر وہ الٹا غصے میں انگارہ بنی اندر آگئی
وہ تو شکر ہے کہ امن اور علی ابھی تک گہری نیند سو رہے تھے, ورنہ شور سے اٹھتے تو امن کچی نیند سے جاگ جاتا تو فاطمہ کے لیے اسے چپ کروانا مشکل ہو جاتا – شام تک جا کر اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا وہ بھی سرمد کے افس آنے کا ٹائم ہو چلا تھا تو اسے اپنا منہ ٹھیک کرنا پڑا ,یار کیا ہی مودب اور اچھے بچے ہیں, اس محلے کے- مجھے دیکھ کر فورا سلام کرتے ہیں
اتنی احترام سے پیش اتے ہیں, سچ میں میں تو حیران ہوتا ہوں, کہ اج کل کے زمانے میں جب انٹرنیٹ کے سوا کسی اور سے واسطہ بچے رکھنا ہی نہیں چاہتے, تو یہ کس قدر تہذیب یافتہ ہیں ,رات کا کھانا کھا کر بچوں سے کھیلتے ہوئے سرمد اسے بتا رہا تھا- لیکن برتن سمیٹ کر کچن میں جاتے ہوئے فاطمہ کو تو گویا بریک لگ گئی- چھوڑیں سرمد اپ بھی کن بچوں سے متاثر ہو رہے ہیں, جو سکول سے انے کے بعد سارا وقت باہر کھیلتے رہتے ہیں
خدا کی پناہ نہ ان کی ماؤں نے منع کرنا ہے ,خود گھروں میں ارام کرتی ہیں اور انہیں باہر نکال دیتی ہیں- چاہے یہ دوسروں کا جینا حرام کر رکھیں- بچوں کی تعریف کر کے سرمد نے گویا اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا- تبھی اس نے دل کی بھڑاس نکالی- خیریت کوئی بات ہوئی ہے کیا, اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو- سرمد کو اس نے ساری بات بتا دی
جس پر وہ کہنے لگا کہ فاطمہ تم بھی حد کرتی ہو- بچوں سے کیا مقابلہ, گیند دے دینی تھی, یوں ڈانٹ کر تم نے اچھا نہیں کیا- ہاں جیسے مجھے تو کوئی کام نہیں کہ میں ہر وقت بیل کے جواب میں بھاگتی رہوں, ان بدتمیز بچوں کو بال مل بھی جاتی تو انہوں نے چین نہیں لینے دینا تھا -لیکن دیکھو کل جب تمہارے بچے بھی اسی طرح کھیلیں گے تو کیا گلی کے باقی بچوں کی طرح تم انہیں بھی بال واپس نہیں کرو گی -جس پر وہ اچھل پڑی اور کہنے لگی ہائے سرمد یہ اپ کیا کہہ رہے ہیں ,اللہ نہ کرے , اتنے گندے ماحول میں کبھی بھی بھیجوں گی نہیں مجھے انہیں خراب کروانے کا کوئی شوق نہیں ,جس پر سرمد نے خاموش ہونے میں ہی عافیت جانی-
کیا بتاؤں اپ کو, سرمد نے اتنے عجیب سے علاقے میں گھر لیا ہے- جہاں کی عورتیں اور بچے گھر میں کم ہی ٹکتے ہیں- ہر وقت گلی میں رہتے ہیں- وہ پچھلے 20 منٹ سے مسلسل امی سے باتیں کر رہی تھی -اور موضوع گفتگو محلے کی عورتیں اور بچے ہی تھے -کس کے گھر کون آیا ہے کون گیا ہے ذرا بھی چھپا نہیں رہتا- ہر کوئی لفافے کے اندر پڑی تک چیز کو بھانپ لیتا ہے
ہر وقت ماؤں اور بچوں نے تماشہ لگایا ہوتا ہے, امی اسے بار بار محلے میں سے کسی سے کوئی رابطہ نہ رکھنے کی تاکید کر رہی تھی- چھوڑو بیٹا تم نے کیا لینا دینا ہے- ان عورتوں سے تم بس اپنے بچوں پر توجہ دو اور کسی سے میل جوڑ بڑھانے کی ضرورت نہیں- امی توبہ کریں مجھے تو کوئی شوق نہیں, اللہ کا شکر ہے کہ میں بہت خوش ہوں اور اپنے گھر میں اتنی مصروف ہوں, کیونکہ مجھے کسی کے گھر جا کر دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے
میں تو بس محلے میں نکلو اور کوئی سلام کرے تو میں تو جواب دیے بغیر ہی اگے چل پڑتی ہوں اس لیے کہ میں ان کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں رکھنا چاہتی- امی کو خوب سنا کر اس کا دل ہلکا ہو گیا- تو اس کے بعد اس نے فون بند کر دیا -اج فاطمہ کی دوست فائزہ آئی ہوئی تھی اتنی مدت کے بعد جب ملی تو بہت اچھا لگا
– بچپن سے لے کر جوانی, شادی تک تمام ہی قصے ایک دوسرے نے سب بچوں کو بھی سنا ڈالے- اور فاطمہ نے تو نہ جانے کتنے کھانے بنا کر اپنی سہیلی کی خدمت مدارت کی- سچ بہت اچھا لگا وعدہ کرو کہ تم بھی میرے گھر جلدی اؤ گی ,اور اسے رخصت ہوتے ہوئے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے دی ,فاطمہ بس ایک بات کہوں تمہارا علاقہ اور محلے کا ماحول بڑا عجیب سا ہے ,یہاں لوگ بڑے بیکورڈ ہیں- مجھے لگتا ہے کہ تمہیں کسی اچھے جگہ پر گھر لینا چاہیے
خدا کی قسم میرے علاقے میں اتنے خوبصورت مکان ہیں تم جلدی وہاں شفٹ ہو جاؤ- پھر ایک پاس رہیں گے تو کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوگا -ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو میں بہت جلد اب اس علاقے سے جان چھڑا لوں گی فاطمہ کی سہیلی کہنے لگی ,ہماری سوسائٹی میں تو یہ حال ہے کہ جنازہ چلا بھی جائے تو کوئی جا کر خبر نہیں لیتا وہ اپنی سوسائٹی کی خوبیاں بتا رہی تھی کہ وہاں کتنی سیکیورٹی ہے اور وہاں پر کوئی کسی کو تنگ نہیں کرتا, ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں مگن رہتا ہے, بس ٹھیک ہے تم بھائی کو منا لو- فاطمہ اس طرح میری سوسائٹی میں آ جاؤ گی تو ہم دونوں فرینڈز ہر وقت ایک ساتھ رہیں گی- چھٹی کا دن محلے میں خوب ہنگامہ لے کر اترتا تھا-
آج بھی ان منحوسوں نے ارد گرد کے محلے والوں کو دعوت عام دیکھ رہے دے رکھی تھی- تب ہی اس قدر باہر شور مچا ہوا تھا- سرمد سو کر اٹھا تھا بچے اپنے کھلونوں میں مصروف تھے -جبکہ علی واکر میں بیٹھا باہر اٹھتے شور سے خوش ہو کر تالیاں بجا رہا تھا- سرمد بیٹے کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اپ بہت خوش ہیں
چلو اچھا ہے کہ میں اپ کو باہر بچوں کے ساتھ کھلا کر لاتا ہوں ,لیکن یہ سننا تھا کہ فاطمہ کو تو پتنگے لگ گئے ,اس نے کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا , اپ ان بچوں کے ساتھ میرے بچوں کو کھلائیں گے, اس قدر فضول لوگ ہیں- یہ لوگ میرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے قابل نہیں
سرمد کو بہت افسوس ہوا اس نے کہا کہ جب سے تم اس محلے میں آئی ہو ,ہر وقت اس کی برائیاں کرتی رہتی ہو ,جس پر وہ فورا بولی ہاں میں چاہتی ہوں کہ ہم کسی سوسائٹی میں موو ہو جائیں- اور اس بیک ورڈ محلے کو چھوڑ دیں- جس پر اس نے کہا کہ یہ بات اب دوبارہ زبان پر مت لانا فاطمہ- وہ تو خواب سجائے بیٹھی تھی کہ بہت جلد وہ اپنی سہیلی کی سوسائٹی میں موو ہو جائے گی
یچر ڈالنے میں میری ساری سیونگ لگ گئی ہیں -اب ممکن نہیں کہ میں اس گھر کو ایک سال سے پہلے چھوڑ سکوں, جس پر فاطمہ جواب میں کہتی ہے کہ میرا گزارا اس میں بہت مشکل ہے -اپ مجھے واپس امی کے پاس بھجوا دیں- کم از کم سکون تو ہوگا- سرمد یہ بات سن کر اتنا دل برداشتہ ہوا کہ گھر سے باہر نکل جاتا ہے, بچے گھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئیں انکل ہم اپ کے ساتھ کھیلتے ہیں
کرکٹ کا تو اسے ویسے ہی جنون تھا ,خوب دو گھنٹے بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیل کر اس کا موڈ بحال ہو گیا- لیکن اندر فاطمہ جلتی رہی گھر واپس آیا تو اس کا موڈ اچھا تھا- سچ مزہ آ گیا بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی, ورنہ گھر سے افس اور افس سے گھر کے چکر میں بندے کو اور کچھ سوجھتا ہی نہیں ,اور جسم کا الگ بیڑا غرق ہو جاتا ہے- کچھ گھنٹے پہلے والی ناراضگی کو بھلا کر فاطمہ سے ایسے بات کر رہا تھا کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں- اب تو سرمد نے ہر اتوار کو معمول بنا لیا کہ وہ بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنا نہ بھولتا
اگر کسی وجہ سے وہ نہ جاتا تو بچے بلانے آ جاتے- فاطمہ اتنا ہی احتجاج کرتی لیکن وہ ہر بات ان سنی کر دیتا اس روز سرمد کو افس کے کام سے باہر جانا تھا -وہ تو صبح سویرے نکل گیا -علی کو گھر میں بخار نے ان گھیرا- دوائی دی لیکن پھر بھی وہ چڑچڑا اور بے چین تھا, گھر کا کام بھی وہ نہ کر سکی اور پھر اسے اٹھائے اٹھائے پھرتی رہی
امن سکول سے گھر ایا تو فاطمہ نے اسے کھانا کھلایا اور سلانا چاہا- اور کچھ اس کو سلاتے سلاتے تھکن سے سو گئی- اج امن کا سونے کا دل نہ تھا ماں کو اور سوتے دیکھ کر وہ بیڈ سے اترا اور کمرے سے باہر نکل گیا- کچھ دیر تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اپنے پرانے کھلونوں اور کاروں سے کھیلتا رہا ,اب اس کا رخ کچن کی طرف تھا- چولہے کے پاس رکھی ماچس دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی
جسے فاطمہ اج کیبنٹ پہ رکھنا بھول گئی تھی- ماچس پکڑے وہ ساتھ والے کمرے میں گھس گیا اور پردے کے پیچھے چھپ کر بیٹھ کر لگا جلانے ایک ایک کر کے ساری تیلیاں – ہونا کیا تھا ایک پردے پر جاگری جیسے ہی اس نے اگ پکڑی وہ خوفزدہ ہو کر بھاگا -اور ماں کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے چھپنے کی جگہ تلاش کرنے لگا- اؤٹ … اسی وقت باہر گلی میں شور اٹھا تھا
فیضان کی گیند پر حارث نے چھکا مارنے کی کوشش کی- جو زوردار ہٹ ماری تھی تو گیند سیدھا جا کر فاطمہ کی چھت پر گری تھی- اب کھیل کے رول کے مطابق نہ صرف اؤٹ ہو چکا تھا- بلکہ اسے چھت پر جا کر گیند اٹھانا تھی ویسے بھی تو فاطمہ نے انہیں گیند دینا نہیں تھی- اس لیے بچوں نے یہ رول بنا رکھا تھا -چلو یار جلدی کرو بال لاؤ جا کر ہمیں گیم ختم کرنی ہے- ویسے بھی اکیڈمی کا ٹائم ہونے والا ہے
حارث کسے طرح کھڑکیوں سے لٹکتا اور گرلوں کو پکڑتا چھت پر پہنچا جوں ہی گیند اٹھانے کو جھکا – نیچے سے جلنے کی بو ائی, وہ تھوڑا سا اگے ہو کر دیکھنے لگا ,نیچے گلی کے ساتھ کمرے کی کھڑکی سے دھواں باہر کو آ رہا تھا – وہ گھبرا کر بچوں کی طرف ایا – باہر گلی میں جو کہ بال کے لانے کا انتظار کر رہے تھے- عمر فراز حسن لگتا ہے سرمد بھائی کے گھر اگ لگی ہوئی ہے – کھڑکی سے دھواں نکل رہا ہے
پتہ نہیں ہے انٹی کہاں ہے- جاؤ اپنے گھروں سے پانی لاؤ – اور عمر تم جلدی سے بیل کر کے انٹی کو بتاؤ- میں نیچے اتا ہوں ,حارث کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ گلی میں ایک دم کرسناٹا چھا گیا – بچے دوڑے کوئی ڈول پکڑ کر لایا, اور کوئی پانی کا کین-
لیکن اگ لگی کیسے اسے یہ سمجھ میں نہ ایا- پھر اس نے اندر کی طرف دوڑ لگائی علی کو بغل میں دبائے ,وہ امن کو ڈھونڈ رہی تھی- لیکن امن کی اواز ا ہی نہ رہی تھی – اندر سے تو انٹی کوئی باہر نہیں ایا ہم نے چیک کر لیا ہے- تو پھر وہ کدھر چلا گیا ?اب وہ پورے گھر میں امن کو ڈھونڈ رہی تھی- بچے اگ بجھا رہے تھے -اسے کچھ ہوش نا تھا
انٹی امن ڈرائینگ کے پردے کے پیچھے چھپ کر بیٹھا تھا – حارث نے اسے اٹھا کر فاطمہ کے سامنے کر دیا -اسے صحیح دیکھ کر اس کی چیخیں نکل گئی- دھاڑیں مار مار کر بچوں کے ساتھ خود بھی رو رہی تھی – ادھر بچوں کی کوششوں سے اگ پر قابو پا لیا- پردے نے اگے پڑی لکڑی کے صوفے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا – جس کی وجہ سے کالین کا بھی کچھ حصہ جل گیا
– دو بچوں نے اگ بجھانے کی کوشش میں اپنے ہاتھ بھی جلا لیے- بچے تو اگ بجھا کر واپس چلے گئے لیکن جب ان کی مائیں باری باری ا کر فاطمہ کو حوصلہ دے رہی تھی- کہ اللہ کا شکر ادا کرو بیٹا کہ کسی بڑے نقصان سے بچ گئی ہو, پریشان مت ہو ہم تمہارے ساتھ ہیں ,اور وہ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھ رہی تھی -سرمد رات کو گھر پہنچا تو گھر کی حالت اور بیوی کے چہرے پر اڑتی ہوائیاں دیکھ کر رنجیدہ ہو گیا
سارا قصہ سنایا تو پھر سوئے ہوئے امن اور علی کو پیار کیا- اس کی انکھوں میں انسو تھے- اور وہ بار بار اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا- اگلے دن افس ضرور گیا لیکن جلدی واپس آ گیا- اور کہا کہ میں شرمندہ ہوں فاطمہ میں نے تمہاری بات نہیں مانی- اب ہم بہت جلد سوسائٹی میں گھر لے لیں گے- اگر تم لوگوں کو کل کچھ ہو جاتا تو میں اپنے اپ کو کبھی معاف نہ کر پاتا
وہ انتہائی رنجیدہ تھا نہیں سرمد ایسا مت کہیں- ایسا نقصان یا پریشانی تو کہیں بھی ہو سکتی ہے- میں ابھی پراپرٹی ڈیلر کے پاس سے آ رہا ہوں اسے میں نے کہا , مجھے کسی اچھی سوسائٹی میں گھر دکھا دے- اور مالک مکان سے بھی معاملات میں نمٹا ہی لوں گا – جیسے ہی گھر اچھا ملے گا ہم شفٹ ہو جائیں گے – بس اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے
لیکن فاطمہ کے بدلے انداز دیکھ کر سرمد حیران رہ گیا کیونکہ اس نے اعلان کیا کہ اس محلے سے کہیں نہیں جاؤں گی- لیکن سرمد نے اسے کہا کہ میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں فاطمہ اور اب یہ فیصلہ میں نے دل اور دماغ سے کیا ہے- لیکن فاطمہ کی بات سن کر اج سرمد حیران رہ گیا
الحمدللہ میں اپ کے ساتھ بہت خوش ہوں سچ کہوں تو انسانیت اور پیار اور ہمدردی کا جو عملی مظاہرہ میں نے ان محلے والوں میں دیکھا ہے -وہ دنیا کے کسی اچھی سے اچھے سوسائٹی میں نہیں ملے گا-اگر بچے وقت پر نہ اتے تو شاید ہم تینوں اپ کے پاس نہ ہوتے- جس طرح انہوں نے بھاگ بھاگ کر اگ بجھائی -کچھ بچوں نے تو اپنے ہاتھ بھی جلا لیے اپنی پرواہ نہیں کی
پھر ان کی ماؤں نے آ کر جس طرح میری دل جوئی کی وہ بولتی چلی گئی – میں یہ سمجھ کیوں نہ سکی کہ اچھے انسانوں سے سوسائٹی بنتی ہے- جہاں پر دکھ سکھ بانٹے جاتے ہوں, صرف مکان سے تو کچھ بھی نہیں ہوتا- سرمد مجھے یہیں رہنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی ان بچوں جیسا بنانا ہے
– جو دوسروں کے کام انے کو ہر دم تیار رہتے ہیں, سرمد وہ تو پہلے دن سے ہی ان محلے والوں کا قدردان تھا ,جب یہاں کے بچے بڑے سب مل کر اس کا سامان ٹرک سے نکلوا کر اندر رکھوا رہے تھے اور اسے اور کیا چاہیے تھا فاطمہ نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دے دیا تھا تو وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا- تو پھر چلیں وہ علی کو اٹھاتے ہوئے کہنے لگی
کہاں.. بھئی جن بچوں نے اگ بجھانے میں اپنے ہاتھ جلائے ہیں چل کر ان کے حال پوچھیں. اور ان کے ماں باپ کا بھی شکریہ ادا کریں .ٹھیک ہے میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں .دونوں امن اور علی کی انگلی پکڑ کر خوشی خوشی محلے والوں کا شکریہ ادا کرنے چلے گئے
Urdu stories love
دل کے ارمان
لکھ ،خالہ جبین بمع اہل وعیال، اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کیے۔ لکھ دیا اماں ! اس نے لکھا ہوا کارڈ ایک سائیڈ پر رکھا اور دوسرا کارڈ اٹھایا۔ اماں! تائی سروری کو تو جلدی کارڈ بھیج دینا حیدر آباد سے خانیوال کا سفر بھی لمبا ہے اور کچھ تیاری بھی تو کرنی ہوگی شادی کی ۔ چھنو نے اماں کو یاد دہانی کروائی۔
دفع کرتائی، سروری لے کے کیا آئے گی شادی میں ۔ ہمیں ہی بھگتنا پڑ جائے گا اسے ، ساتھ میں دو چار پوتا پوتی کو لٹکا لائی تو کونڈا کر دیں گے ہمارا تو- ہاں اماں اٹھیک کہتی ہو، پلنگ پر پڑی پڑی حکم چلائے جائیں گی اور پان کا خرچا الگ کروائیں گی- اے بیٹا! جلدی سے بنارسی تمباکو کا سانچی پان بنوا کر لائیو، سر چکرا رہا ہے۔ طبیعت بڑی بوجھل ہو رہی ہے۔
گلوری منہ میں رکھوں تو کچھ طبیعت سدھرے ۔ پورے سات پان بنا کر چلی تھی گھر سے ٹرین میں یونہی اپنا چاندی کا پاندان کھولا۔ پورے ڈبے میں پان کی دل فریب مہک سب کے نتھنے مہکا گئی۔ کیا مرد، کیا عورت سب ہی نے للچائی نظروں سے ایسے دیکھا کہ منہ میں رکھا پان چبانا مشکل ہو گیا۔ میں نے بھی سارے پان ندیدوں میں بانٹ دیے۔
نظر میں آیۓ پان کھا کر مجھے اپنی طبیعت تھوڑی خراب کرنی تھی ۔ عمار نے ہوبہوتائی سروری کی پوپلے منہ کے ساتھ نقل اتاری تو سب کی بھونڈی ہنسی سے فضا گونج گئی- حالاں کہ تمہاری تائی تو وہ بخیل ہستی ہے جو کسی کو اپنا بخار بھی نہ دے۔ ساٹھ پان تو اس نے اپنی زندگی میں نہ کھائے ہوں گے ۔ ایک پان کو چٹکی چٹکی کھاتے ہفتہ نکال دیتی ہے۔
اماں نے تائی سروری کے مزید گن گنوائے تو سب نے ان کی تائید میں اپنی موٹی گردنیں پورے زور سے ہلائیں۔ چل اب ماموں شرف کا کارڈ بھی لکھ دے، سگا نہیں ہے تو کیا ہوا؟ سگوں سے بڑھ کر چاہتا ہے تمہیں۔ بہن سمجھ کر ہمیشہ ہر موقع پر کھڑا رہا ہے تو اس موقع پر کیسے بھول جاؤں میں اس کو ۔ ماموں زاد کی محبت امڈ کر آئی۔ اماں! رشتے داروں کے کارڈ تو مکمل ہو گئے۔
اب ذرا محلے والوں کی طرف آجاؤ۔ ہاں بھئی ۔ محلے والوں کا تو پہلا حق ہے ان کو بھلا میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں ۔ انگلیوں پر محلے داروں کو گننے لگیں کہ کس کس کو بلانا ہے۔ ابھی تک کارڈ لکھنے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا؟ یہاں پیٹ میں چوہے دوڑ دوڑ کر بے دم کر رہے یں۔ خدا کے لیے اٹھ کر کچھ شکم سیری کا سامان بھی کرلو- کاشی اماں کے پاس آکر دھم سے گرا تو وہ اسپرنگ والے صوفے کی وجہ سے اچھل پڑیں اور اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے بولیں- ایک دن پیٹ پوجا نہ کی تو کیا ہوگا۔
پھر بھی اتنی ہی بھوک ستارہی ہے تو جا اور دو کریم رول پکڑ لا اوردودھ کے ساتھ کھائے۔ انہوں نے اسے اپنے پاس سے اٹھا کر باہر کی طرف دھکیلا اور پھر کارڈز کی طرف متوجہ ہوئیں۔ اماں ذرا جلدی بولو، ایمان سے میری تو کمر بھی تختہ ہوگئی۔ لکھتے لکھتے انگلیاں بھی دکھنے لگیں۔ اتنی دیر تو میں کبھی امتحانی کمرے میں نہیں بیٹھا جتنی دیر سے میں اس جس زدہ کمرے میں بیٹھا کارڈ لکھ رہا ہوں۔
معمر کا رڈز پکڑے پکڑے اماں کی گود میں لیٹ گیا۔ لو تم تو لکھتے لکھتے تھک گئے اور ہم تمہیں دیکھ دیکھ کر ہی اکڑ گئے ہیں، چھنو پر جھنجلاہٹ سوار تھی کیونکہ اس کے پسندیدہ ڈرامے کا ٹائم ہو چکا تھا مگرماں کا حکم تھا کہ یہاں سے کوئی نہیں ہلے گا جب تک کارڈ مکمل نہ لکھ لیے جائیں ، کیا پتا دماغ میں کوئی ضروری نام لکھنے سے رہ جائے تو ان میں سے کوئی یاد تو کروا دے گا۔
اے زیادہ چلانے کی ضرورت نہیں ڈرامے کی آگ لگ رہی ہے تو جا دفع ہو،جا کے دیکھے اپنی پرکٹی سفید پاؤڈر میں لتھڑی چٹی کبوتریوں کو ، یہ عمار ہے ناں میرا بچہ دماغ کا تیز، اس سے پوچھولوں گی اگر کوئی نام ذہن سے نکل بھی گیا تو ۔ عمار اپنی تعریف سن کر مزید پھیل کر بیٹھ گیا اور چھنو قلانچیں بھرتی ہوئی ساتھ والے کمرے میں دوڑ گی۔
اماں پھر سے معمر کو نام لکھوانے لگیں- اکرام کباڑیے کا نام بمع فیملی لکھ دے، ہے تو بے چارا کباڑیا پر دل کا بڑا سخی ہے جتنا اس کے گھر والے کھا کے جائیں گے ، اس سے چار گنا زیادہ دے کر جائیں گے۔ اماں جلدی جلدی بولو، اب تو پنسل بھی جواب دینے لگی ہے پھیکا پھیکا سا لکھ رہی ہے۔ ہاں بس اب اپنی یہ گلی میں وہ جو لمبا سالڑکا رہتا ہے۔
ارے وہی جو دفتر میں کام کرتا ہے۔ لمبی سی کا ر ہے جس کے پاس اماں نے نام یاد نہ آنے پر عمار کی طرف دیکھا۔ نور عالم، عمار نے فورا ماں کا مطلوب نام زبان سے ادا کیا۔ ہاں وہی نور عالم ! انہوں نے محبت سے عمار کے لمبوترے سر پر اپنا سیاہی مائل ہاتھ پھیرا- اماں! ان سے تو ہماری کوئی سلام دعا نہیں ہے، ان کو تو رہنے ہی دو ۔
ویسے بھی وہ اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں۔ ہمارے عجیب الخلقت خاندان کو دیکھ کر وہ کیا سوچیں گے ؟ معمر نے نام لکھنے سے صاف انکار کر دیا۔ اے میں کہہ رہی ہوں لکھ۔ اس کی بیوی سے سلام دعا ہے میری۔ ایک دو مرتبہ گلی سے گزرتے ہوئے اس نے مجھے سلام بھی کیا اور اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دی ہے۔ اتنا بڑا گھر ہے اس کا تو دل بھی بڑا ہی ہوگا ناں۔ وہ اس کے ٹائلوں والے گھر سے کچھ زیادہ ہی متاثر لگ رہی تھیں۔
لو بھئی اماں میرا کام تو ختم ، ایمان سے اب تو نیند بھی آنکھوں میں بھر گئی ہے۔ اس نے انگڑائی کے ساتھ ہی بڑی سی جمائی بھی لی مگر اگلے ہی پل اس کے انگڑائی لیتے بازو فضا میں ہی رہ گئے۔ اماں نے بھی صوفہ چھوڑا اور اپنے بھاری بھر کم وجود کو سنبھالتی باہر تخت کی طرف بھاگیں ۔ جہاں منور حسین سر جھکائے شکست خوردہ سے بیٹھے تھے۔ کیا ہوا منور حسین ٹھیک تو ہو مگر ادھر گھمبیر خاموشی تھی۔
اے کچھ تو بتاؤ۔ یوں منہ لٹکا کر بیٹھ گئے میرا تو دل ہولئے دے رہے ہو۔ اماں بھی وہیں تخت پربیٹھ گئیں- چھنو بھی ادھورا ڈرامہ چھوڑ کر منور حسین کے قدموں میں بیٹھ گئی اور منور حسین چھنو کے سر پر ہاتھ رکھ کر رندھی آواز میں بولے۔ مجھے معاف کر دینا میری بیٹی تجھے اب چند جوڑوں اور معمولی جہیز میں ہی اس گھر سے رخصت ہونا ہو گا- کیا اول فول بولے جارہے ہو، کیا سٹھیا گئے ہوا سیدھی طرح اصل بات کی طرف کیوں نہیں اتے- ماں نے جھنجلا کر ان کے ناتواں کندھے پر ہاتھ مارا تو ان کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز واضع سنائی دی۔
باقی سب بھی منہ کھولے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ وہ منور حسن ہکلاے ۔ ہاں ہاں بولو، اماں نے ان کے خضاب والے بالوں پر ہاتھ پھیر کر حوصلہ دیا اور پانی کا گلاس ان کے کپکپاتے لبیوں سے لگایا جو عمار ان کی حالت کے پیش نظر لے آیا تھا۔ پانی پی کر کچھ حالت تو سنبھلی تھی مگر آواز ابھی بھی کانپ رہی تھی۔
مگر صورت حال سے سب کو آگاہ کرنا بھی لازمی تھا۔ وہ ہاجرہ بیگم انیسہ سلطانہ نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ خبر سنا کر وہ چور سے بن گئے۔ کیا، الفاظ تھے یا بم ، ہاجرہ بیگم کوغش آگیا۔ چنھو اپنے میلے دوپٹے کو منہ میں پھنسا کر دبی آواز سے رونے کی۔ عمار اور بلو کے چہروں پر بھی یہ خبر سن کر مردنی چھا گئی مگر اماں کی حالت دیکھتے ہوئے انہیں جلدی سے ان ہی کے لہسن پیاز کی بساندھ میں رچے دوپٹے سے ہوا دینے لگے۔
چلو بھر پانی ان کے منہ میں ٹپکایا تو انہوں نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں اور بھرائی ہوئی آواز میں منور حسین سے مخاطب ہوئیں۔ پرمنور حسین ! انکار کی کوئی وجہ بھی تو بتائی ہوگی اس نے، ہاں ۔ منور حسین نے سرد آہ بھری۔ وجہ سن کر ہی تو میرے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی۔ اے اب بتا بھی چکو، نہیں ہورہا صبر مجھ سے۔ انہوں نے اپنا سینہ مسلا۔ دو دن پہلے ہارٹ اٹیک ہوا ہے اسے ۔ کل ہی اسپتال سے گھر آئی ہے۔
آج اس نے مجھے فون کر کے بلایا۔ کہنے لگی میری زندگی کا کوئی بھروسا نہیں میں تمہیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتی۔ میں نہیں چاہتی کہ تم شادی کے چند دن یا چند ماہ بعد ہی رنڈوے ہو جاؤ۔ میں تمہارے جیسے مخلص شخص کو یہ دکھ ہرگز نہیں دوں گی۔ منور حسین یہ بات بتاتے ہوئے تقریباً رو ہی دیے، اور اماں کا تو یہ حال تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ ہائے یہ کیا ہوا؟
لاکھوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث انیسہ سلطانہ منور حسین کی دور پار کی رشتہ دار تھیں ۔ بھاری بھر کم ہونے کے باعث رشتہ ہی نہ ہو سکا جو آتا وہ انکار کرکے چلا جاتا اور شادی کی عمر نکلتی چلی گئی۔ ماں باپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد وہ اس مکان میں بالکل تنہا رہ گئیں۔ سرکاری اسکول میں نوکری کرتی ہزاروں کمارہی تھیں ۔ ابھی ریٹائرمنٹ لے کر لاکھوں روپے کی مالک بنی تھیں۔
سنا تھا جوانی میں منور حسین پر بڑی آس لگائے بیٹھی تھیں اور اسی آس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاجرہ بیگم نے اپنے شوہر منور حسین کا رشتہ انیسہ سلطانہ کے سامنے رکھا تو وہ بھی کچھ پس وپیش کے بعد مان گئیں کہ تنہا رہتے رہتے وہ بھی اوب گئی تھیں اب اپنی زندگی کے باقی ماندہ ایام وہ بھرے پرے گھر میں گزارنا چاہتی تھیں۔
ہاجرہ بیگم نے ان کو شیشے میں ایسا اتارا کہ وہ منور حسین کی سادگی اور پر خلوص رویہ دیکھ کر آنے والے دونوں کے تصور سے ہی کھلی کھلی رہنے لگیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہاجرہ بیگم کا یہ خواب کہ دو کمروں کے گھر سے انیسہ کے بڑے سے پختہ و خوب صورت مکان میں شفٹ ہو جائیں گے ، بیٹی خوب جہیز لے کر رخصت ہوگی اور انیسہ کی ساری کمائی میرے بیٹوں کے کام آئے گی۔ ان کے تو دن ہی پھرجائیں گے۔
بڑی دور کی سوچی تھی، انہوں نے تو اپنے شوہر میں بٹوارہ بھی اسی بنیاد پر برداشت کرنے کی ٹھان لی تھی۔ یہ کڑوی گولی نکلنے کا فیصلہ اپنے بچوں کے خواب پورے کرنے کے لیے کیا تھا مگر سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔
Urdu stories love
ایک دن کی محبت
اسے اب تک یقین نہ آ رہا تھا کہ جس کو اس نے چاہا وہ اتنی اسانی سے اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا – نہ کوئی سماجی روڑا اٹکا درمیان میں، نہ کوئی گھریلو اعتراض اٹھا، سب ایک دم سے بالکل فٹافٹ ہو گیا -اور یوں آسانی سے ہوا کہ وہ خود حیران رہ گئی -آخر اسے پہلے کہاں پتہ تھا کہ ادھر سے سمیر بھی اسے اتنا ہی چاہتا ہے،جتنا وہ اسے- وہ بھی اسی کی طرح اس کی محبت میں اندر تک ڈوبا ہوا ہے
اور جب اسے علم ہوا تو وہ جیسے آسمان پر پہنچ گئی- پیر زمین پہ اب ٹکنے تھے بھلا- ہواؤں میں اڑنے لگی- دیکھتے ہی دیکھتے پھوپھو کی نند آئی رشتہ ڈالا- اور اس کے خاندان سے ہاں کرا کے اٹھی- اس کی تو مراد بھر ائی تھی ساری رات کمرے میں لڈیاں ڈالتے گزری- اور اگلے دن پھوپھو کی نند نے جلدی منگنی کا شور مچا دیا اس کے گھر والے پھوپھو کی دی گئی تسلیوں سے کافی مطمئن اور شاداں تھے منگنی کی ہاں کرتے ہی تاریخ دے دی
اور پھر دونوں طرف منگنی کے ہنگامے جاگ اٹھے- ایسے میں ایک دن سمیر منگنی کا جوڑا چیک کرانے کی خاطر ان کے گھر چلا آیا، تو دروازہ کھولتے ہی وہ سرخ شرم سے ہو گئی،اندر بھاگ جانا چاہا مگر سمیر کی پھرتی نے اس کا ارادہ ناکام کر دکھایا، اس نے اسے کلائی سے پکڑا خوش ہو، اور وہ کیا کہتی پلکیں جھکا کر ساتھ میں سر بھی ہلا دیا- گویا جواب مثبت تھا، سمیر کا چہرہ کھل اٹھا منگنی کے بعد تمہیں فون کروں گا
اس نے سرگوشی سے اسے آس لگائی- تو وہ اگلے دس دن فون کی اسکرین کو دیکھ کر پاگل ہو گئی- مگر سمیر کو شاید یاد ہی نہیں کہ اس نے یہ بات کہی تھی- کاش وہ اس وقت وعدہ نہ کرتا تو اج میں اس ناراضگی میں ڈوبی فون ہی کی تو نہ ہو کر رہ جاتی-وہ اندر ہی اندر خود کو کوستی رہی کہ اس ہی وقت اس سے پکا وعدہ کیوں نہ کرا لیا
منگنی کے دوسرے ہفتے فون کے اس پار سے آتی سمیر کی بھاری مگر میٹھی اواز نے اس کے حواس ہی نہیں ساتھ اس کا دل بھی کھینچ لیا- کیسی ہو اس کا پوچھنا تھا کہ اس کا جی چاہا اپنا دل کھول کر سارے کا سارا اس کے سامنے رکھ دے – مگر حیا اڑے آ گئی ،وہ دھیما سا مسکرا دی، اچھی ہوں وہ تو میں بھی جانتا ہوں اس اچھے پن نے تو جیسے اچھے خاصے عقل شعور والے بندے کو بے عقل کر دیا ہے
سمیر نے اپنے جرم محبت کا اعتراف کیا-تو اس کا دل بھی دھڑک گیا پھر اس دن سمیر نے بہت باتیں کی تھیں- بہت سے وعدے کیے- بے شمار عہد و پیماں باندھے- وہ اس کی محبت میں اندر تک بھیگتی چلی گئی- انے والے دنوں میں بھی سمیر نے ہر پل ہر لحظہ اسے اپنی محبت کا یقین دلایا تھا- اسے بتا رہا تھا کہ اس کے بغیر اس کے دل کس قدر بے چین اور راتیں کتنی بے سکون ہیں
وہ اس کی ایسی محبت بھری باتیں سن کر خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھنے لگی -جس کا چاہنے والا منگیتر تھا جو اس کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتا – وہ پھر کاہے نہ خود پہ اتراتی- سمیر تو جلدی شادی کرنے کا خواہشمند تھا- مگر مناہل کے گھر والے ہی تھوڑا ٹال مٹول کر رہے تھے، کہ بیٹی بیاه دینا آسان کہاں ہے- سوئی سے لے کر سلائی تک تیاری ہوتی ہے- ابھی کیسے شادی ہو سکتی ہے ؟اور اس کے تو ابھی بی ایڈ کے ایگزامز ہونے والے ہیں- ایسے کیسے ایک دم سے سب کچھ چھوڑ کر شادی کردیں
جبھی سمیر کے گھر والوں سے کچھ وقت کی مہلت مانگ لی تھی – وہ بھی اس منگنی کے پیریڈ کو ابھی انجوائے کرنا چاہتی تھی- تب ہی خاموش رہی – وہ بھی دو دو تین تین دن بعد لازمی کال کرتا اس کی کم سنتا اپنے دل کی ساری باتیں سناتا- اور اس کا دل بے قابو کیے جاتا ایسے ہی میں محبت منانے کا وہ دن بھی ا پہنچا، جس دن تمام نوجوان، اپنی اپنی محبت کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں
اس دن وہ سارا دن فون کے ساتھ چپکی بیٹھی رہی اور انکھیں تھیں کہ باہر دروازے پر جمی تھی- جہاں سے اسے سمیر کے کسی سرپرائز آنے کا انتظار تھا- اسے پورا یقین تھا تو وہ اج کا دن قطعی طور پر مس نہیں کرے گا- پھول اور کارڈ لازمی بھیجے گا- مگر صبح سے دوپہر دوپہر سے شام اور پھر شام سے رات ہو گئی ، اس کا میسج تک نہ آیا ،حالانکہ اس نے وہ ساری رات اس کے کال کے آنے کا انتظار بھی کیا تھا ،مگر فون بج کر نہ دے رہا تھا
– جب رات اس کی انکھ لگی، تب اس کی انکھیں کافی حد تک سرخ اور بھیگ چکی تھیں، خالی دامن سی وہ کب سوئی اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا
اگلے دن تک اس کا دل بھجا بجھا اور اندر خاموش خاموش رہا -جبھی تو وہ من ہی من میں سمیر سے ناراض ہو گئی- اور پھر جب اگلے دن اس نے فون کیا تو اس نے جان بوجھ کر کال کاٹ دی- دوسری بار بیل ہوئی تو کال ریسیو بھی نہ کی- بیل پہ بیل بجنے لگی اس نے کان لپیٹ لیے انجان بن گئی- سمیر کے اندر کھٹک سے گیا وہ پریشان سا ہو کر گھر پہنچ گیا – سامنا بھابھی سے ہوا تو بے اختیار اس نے مناہل کو لنچ کرانے کا کہہ دیا
بھابھی نے امی سے اجازت لے کر مناہل کو تیار ہونے کو کہا، تو وہ مان کر نہ دی، پھر بھابھی نے دھمکایا کہ سمیر اندر آ جائے گا خود لینے- تو پھر اسے بادل نخواستہ تیار ہو کر اس کی گاڑی میں آ کر بیٹھنا پڑا- مگر وہ سارا راستہ خاموش ہی رہی- سمیر بار بار اسے بلاتا رہا مگر اس نے چپ کا روزہ نہ توڑا – آخر سمیر تپ گیا – کیا ہے یار یہ تم کس طرح سے میرے ساتھ بیٹھی ہو
اپ کو کیا سمجھ میں آتا ہے -اس نے دانتوں پہ دانت جمائے- تمہاری بے وجہ کی خاموشی میری سمجھ سے باہر ہے – اگر کوئی ناراضگی ہے تو بتا دو- اپ کو میری ناراضگی کی کب سے پرواہ ہونے لگی- اس نے نم انکھوں سے کہا تو وہ نرمی سے مسکرا دیا- تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ محترمہ ناراض ہیں- وہ شریر ہوا تو مناہل نے سر جھٹک دیا- وجہ پوچھ سکتا ہوں جو دل کے قریب ہوتے ہیں دلوں کے راز جانتے ہیں ،اسے طنز کیا تو مسکراتے لب اس کے وہیں بھینچ گئے
مناہل مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تمہارا رویہ کیوں اور کس وجہ سے ایسا ہے اوکے اگر یہ بات ہے تو میں چلی جاتی ہوں- وہ ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی- اس نے بے ساختہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا- محبت یوں اسانی سے چھوڑنے والی چیز نہیں ہوتی- اس کا لہجہ سنجیدہ تھا- محبت وہ ہنسی ،اپ کو واقعی مجھ سے محبت ہے؟ کیوں کیا تمہیں کوئی شک ہے وہ اس کی انکھوں میں دیکھنے لگا- تو پھر یہ محبت خاص محبت کے دن کہاں غائب ہو گئی تھی؟ کہ پھول تو بھیجنا درکنار فون تک نہ کیا
اور نہ ہی کوئی اظہار- اوہ تمہاری ناراضگی کی وجہ یہ ہے- اسے پل بھر میں ساری بات سمجھ میں آ گئی – کیا اس سے بھی بڑی کوئی وجہ ہو سکتی ہے ؟ادھر آؤ اور ارام سے بیٹھو- اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسے سامنے والی کرسی پر بٹھا لیا- مگر اس کا منہ ابھی بھی پھولا ہوا تھا میری بات سنو مگر غور سے, اس نے پورا منہ انگلی سے اپنی جانب کیا- میری محبت کیا اتنی کمزور ہے کہ تم نے اسے صرف ایک دن پر لازم کر کے چھوڑ دینا چاہا، وہ ایک دن بہت خاص ہوتا ہے مسٹر سمیر -اس کے لہجے میں اب بھی طنز تھا
ہاں ان لوگوں کے لیے جو محبت صرف ایک دن کرتے ہیں -جنہیں روحانی محبت کے چاہ نہیں ،بلکہ جسمانی محبت کی ہوس ہوتی ہے -اس کے ایک ہی طنز نے اس کی ساری ہوا نکال دی- تم نے میری محبت بھی صرف ایک دن کے ترازو پر رکھ کر تولنا چاہی – مجھے افسوس ہے کہ تم نے ایسا کیا- سنجیدہ لب و لہجہ اب ناراضگی میں ڈوبنے لگا تھا
14 فروری کی محبت ان کمزور لوگوں کی کمزور محبت کی نشانی ہوتی ہے جو سال بھر ادھر ادھر منہ مارتے اور وقت ضائع کرتے رہتے ہیں -اور اسی دن کے انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ کسی اپنے کو اس دن وش کر لیں گے -اس پر اپنی محبت یا طاقت کا ثبوت دیں گے کہ اس کے دل میں وہ بستا ہے، اور باقی کے سال کے دن ضائع کر دیتے ہیں
یہ تو وہی جان سکتا ہے- جو سچی محبت کا طلبگار اور خواہاں ہوتا ہے- اس کی انکھوں میں دیکھتا اس کا لفظ لفظ سچ اگل رہا تھا- مناہل کا دل ڈوب ڈوب کر ابھرنے لگا- سچ میں مناہل میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتا تھا مگر پھر بھی اگر تم یہی چاہتی ہو کہ اپنے محبت کا اظہار صرف 14 فروری کو کروں تو ٹھیک ہے -پھر سال بھر میرا انتظار کرو- میں اگلی 14 فروری کو تمہیں پھول کارڈ بھیج دوں گا
اور فون کر کے اپنی محبت کا اظہار بھی کروں گا- باقی کے سارے دن تم انتظار کرنا اوکے اب اگلے سال ملیں گے خدا حافظ- سمیر سنجیدہ چہرہ لیے تیزی سے اٹھا اور مڑ گیا -مگر مناہل کو تیزی سے ہوش انے میں وقت نہ لگا اور اس نے اس کا بازو پکڑ لیا – وہ رک گیا مناہل نے کان پکڑ لیے اور ساتھ ہی اس کی انکھیں بھر ائی- تو سمیر کا دل ڈوب گیا-میں بہت شرمندہ ہوں اور بہت نادم بھی
وہ رو رہی تھی ابھی جو تم نے کہا اس طرف تو میرا دھیان ہی نہ گیا- میں فضول میں اتنا جذباتی ہو گئی -ارے پاگل سمیر نے فورا اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما- ہو جاتا ہے نادانی میں کبھی کبھار ایسا- لیکن یاد رکھنا سمیر تمہارا ہے اس کی محبت خاص دنوں کی محتاج نہیں- وہ جب چاہے اظہار کر دے یہ تو رواں رہنے والی چیز ہے- صرف ایک دن میں سمٹنے والی نہیں- اور اس کی انکھوں میں وہ ٹھاٹیں مارتا ہوا محبت کا سمندر دیکھتی چلی گئی
Urdu stories love
دوسری شادی
آپا کیوں رو رو کے خود کو اتنا ہلکان کر رہی ہیں، کر رہے ہیں مجاہد بھائی دوسری شادی ،تو کر لینے دیں- خود ہی مرغا بن کے توبہ نہ کریں، تو پھر کہنا- صوفے پر لیٹے ہوئے مزے سے پوپ کارن کھاتے ہوئے اس نے آپا کو مشورے سے نوازا- جانے کب سے اماں کے پہلو سے لگی مجاہد کی دوسری شادی کا رونا رو رہی تھیں- مجاہد کی جگہ اگر اعظم ہوتا نا ،تو پھر تم سے پوچھتی
آپا نے روٹھے ہوئے لہجے میں کہا. انہیں ناجیہ کا مشورہ بالکل پسند نہیں- قسم لے لیں آپا جو منع کروں بلکہ اعظم ارادہ تو باندھے- ایمان سے ساری رسمیں کرواؤں گی ،اپنے ہاتھوں سے دلہن سجاؤں گی ان کی- اس کے چہرے پر ایک شکن تک نہیں آئی تھی- سچ کہہ رہی ہو اندر اتے اعظم نے اس کی بات سن لی -اور فورا تصدیق چاہی- 100 فیصد، وہ صوفے پر اس کے لیے جگہ بناتے ہوئے بولی
اور اماں اسے گھورتی رہ گئی دیکھ لو پھر تم مکر نہ جانا -اعظم نے جیسے بات پکڑ لی تھی -کبھی نہیں، وہ اس قدر اعتماد سے بولی کہ راشدہ بھی اپنا غم بھول کر اسے دیکھنے لگی- ناجیہ ذرا میرے ساتھ کچن میں آنا -اماں نے اسے حکم صادر کیا- ان کے پیچھے وہ کچن پہنچ گئی ،پاگل ہو گئی ہو تم کچن میں داخل ہوتے ہی اماں اس کی طرف تیزی سے پلٹی تھی کہ وہ اچھی خاصی گھبرا گئی- توبہ امی دل نکال لیا میرا آپ نے- وہ دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی تمہیں سنبھال رہی ہوں، تمہارا دل نہیں نکال رہی سمجھھی
امی کو غصہ آ گیا -غضب خدا کا شوہروں کے سامنے کوئی ایسے دھڑلے سے شادی کی بات کرتا ہے- ہاں تو امی سچ کہہ رہی ہوں میں شریعت کو سمجھتی اور مانتی ہوں – ایسا نہیں کروں گی کہ آپا کی طرح رو رو کے سارے خاندان نے اپنے شوہر کا نام خراب کروں- وہ کچھ دیر پہلے فرائی کیے شامی کباب اٹھا کر کھانے لگی- شریعت کو سمجھتی تو یہ نہ کہتی- اماں نے پلیٹ اس کے سامنے سے اٹھا لی
شریعت میں صاف ہدایت ہے کہ عورت کی عزت، کردار دیکھ کر اسے پسند کیا جائے- نہ کہ اس کی ظاہری حسن اور دکھاوے سے- اور یہ بھی واضح ہے کہ سب کے حقوق برابر دیے جائیں کسی کی خاطر کسی کو حقیر نہ جانا جائے- اور ادھر مجاہد ابھی سے ساری ساری رات گھر سے باہر گزارنے لگا ہے- خرچے میں راشدہ بیچاری کو تنگ کر رہا ہے
بچوں تک سے ملنے کا وقت نہیں رہا اس کے پاس- اماں بس بولتی چلی گئی ،ایسا ہے کیا ؟ناجیہ کو افسوس نے آ گھیرا- اور نہیں تو کیا وہ چائے کپوں میں ڈال کر ٹرے میں رکھتے ہوئے بولی- اور اب بھول کر بھی کبھی شوہر کے سامنے اس طرح کی بات مت کرنا- مرد کا دماغ گھومتے دیر نہیں لگتی- کچھ الٹا سیدھا ہو گیا تو روتے ہوئے میرے پاس مت آنا – اماں یہ کہہ کر کچن سے چلی گئی اور وہ ان کے پیچھے سر جھٹکتی چلی گئی
عدیل اعظم کا جگری دوست تھا اور کولیگ بھی، اکثر رات کو کھانے پر ان کی طرف آ جاتا تھا اور وہ دونوں بھی اس کے ساتھ کو خوب انجوائے کرتے تھے- بھابی ذرا نظر رکھا کریں اعظم پر – آفس میں بہت خوبصورت سٹاف بھرتی ہوا ہے -وہ کھانا لگا رہی تھی کہ عدیل نے شریر لہجے میں اعظم کی طرف دیکھتے ہوئے اسے چڑانے کے لیے کہا -نظر رکھ کر کیا کرنا ہے عدیل بھائی- ناجیہ مسکراتے ہوئے بولی -دیکھ لیں بھابھی پھر ہاتھ ملتی نہ رہ جائیں
یہ نہ ہو اعظم دوسری بھابی کا بندوبست کر لیں اور اپ کو خبر ہی نہ ہو -عدیل نے مزید وضاحت کی -بکو مت اعظم نے اس کے کندھے پر مکا جڑ دیا- رہنے دیں شوق کرنے دیں پورا ان کو ،مشکل ہو جائے گی مجھے کیا پرابلم ہونی ہے- ناجیہ نے ناک پہ سے مکھی اڑائی- دیکھا میری بیوی کی طرف سے کھلی اجازت ہے تم اپنی فکر کرو اعظم مسکراتے ہوئے بولا – تو تو واقعی لکی ہے یار – بھابھی آ پ کو ماننا پڑے گا
وہ نازیہ کی طرف دیکھتے وقت بولا – ویسے اس میں میرا کوئی کمال تو نہیں کیونکہ یہ تو مرد کا حق ہے- لیکن پھر بھی شکریہ- ناجیہ تعریف قبول کرتے کچن کی طرف بڑھ گئی- کیا خیال ہے ذرا بھابی کو آزمایا نہ جائے؟ وہ فورا شرارت سے اعظم کی طرف جھکا-کیا مطلب؟ ویسے یار اعظم عدیلہ ہے بڑی قاتل چیز- وہ اچانک ہی بولا- عدیل نے کچھ سوچ کر اعظم کوآنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا اور نازیہ کو دیکھ کر خاموش ہو گیا
نازیہ نے نا سمجھی سے اعظم کو دیکھا لیکن اسے کھانا کھاتے دیکھ کر وہ سر جھٹک گئی -اس کا خیال تھا اعظم خود ہی سے اسے عدیلہ کے حوالے سے بتا دے گا- کیونکہ وہ کوئی بات اس سے نہیں چھپاتا تھا- عدیل چلا گیا اعظم افس کا کام لے کر بیٹھا تو وہ کچن صاف کرنے آ گئی-عدیل بھائی کس کی بات کر رہے تھے، برتن دھوتے ہوئے دماغ میں یہ بات اٹکی رہی- بار بار اس کی دوسری شادی کا ذکر کر کے تم نے اسے یہ ادراک دے دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں آزاد ہے اور تم بھی اس کے ساتھ ہو
تو رنگ بدلتے دیر نہیں لگے گی اعظم کو، آ ج کل تو ویسے ہی مرد کے لیے کتنی چوائسسز ہیں- اگر آفس میں کوئی لڑکی دل کو بھا گئی تو اعظم ذرا دیر نہیں لگائے گا ،اسے اپنا لے گا -اماں کی آواز نے ایک دم ہی اس کا دل بوجھل کر دیا اس نے بد دلی سے کام کیا اور کمرے میں آ گئی- اعظم کسی سے موبائل پر بات کرتے ہوئے مسکرا رہے تھے اسے اندر آتا دیکھ کر فورا اللہ حافظ کہہ کر کال بند کر دی –
آج تو سب کچھ پرسرار لگ رہا ہے مجھے – ناجیہ نے کھوجتی نظروں سے اعظم کو دیکھا- یار جلدی سے لائٹ آ ف کرو- صبح میں نے جلدی آفس جانا ہے- اس کی طرف پشت کرتے اعظم نے کہا ،اور وہ ساکت بیٹھی رہ گئی وہ بھلا کہاں اس کے بازو پہ سر رکھے بنا سوتی تھی- اس کے نزدیک دال میں ضرور کچھ کالا تھا -انہی تفکرات میں گھری وہ سو بھی نہ سکی-بارش بہار کی آ مد کا پتہ دے رہی تھی
اور اندر اس کا دل نہ جانے کیوں خزاں سا ہوا جا رہا تھا -اداس ، کھانا پکا کے وہ ہمیشہ کی طرح ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئی- اس کا پسندیدہ ڈرامہ آ نے والا تھا- وہ کچھ دیر بت کی طرح بیٹھی رہی، ٹانگیں لمبی کر کے لیٹی نہ ہی میز پر سے پوپ کارن کی پلیٹ اٹھانے کی زحمت کی- بس چپ چاپ ٹی وی کی سکرین کو تکتی رہی
یہاں تک کہ آنکھیں جلنے لگی -تب موبائل نے شور مچایا اس نے آ نکھیں رگڑ کے صاف کی- اور فون اٹھا لیا دوسری طرف اعظم تھا- جی اعظم ..یار میں آج لیٹ ہو جاؤں گا- تو پلیز کھانا کھا لینا -میرا انتظار مت کرنا- اعظم نے ہدایت دی لیکن اعظم، اعظم آ جائیں یار- کسی نے دور سے اعظم کو پکارا تھا- وہ زنانہ آواز تھی ناجیہ چپ رہ گئی- کچھ نہ بولی- گھر آ کر بات کرتے ہیں
ٹیک کیئر محبت اور عجلت بھرے انداز میں کہہ کر اس نے کال منقطع کر دی- اور ناجیہ کی پلکیں بھیگنے لگی تھیں- کہیں مجاہد بھائی کی طرح اعظم بھی کسی کولیگ کے ساتھ …اس سے آ گے کی سوچ سے روح تک کانپ گئی تھی- مرد ہی چار چار شادیاں کر سکتا ہے حق ہے اس کا -اندر سے کہیں سے طنزیہ آوازآ ئی – آفس میں بزی ہوں گے -میں بھی نا اس نے فورا خود سے نظر چراتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط کیا
یہ اور بات کہ اعظم کے آنے تک نہ کھانا کھانے کو دل کیا -اور نہ ہی کچھ اور کرنے کو- بس چپ چاپ بے چینی سے ادھر ادھر ٹہلتی رہی- اور پھر یہ معمول بنتا گیا اعظم اب اکثر گھر دیر سے آتا- دونوں وقت کا کھانا بھی باہر ہی کھاتا– ناجیہ بس انتظار ہی کرتی رہ جاتی، جس وقت گھر پہ رہتا وہ وقت بھی زیادہ تر موبائل میں مصروف رہتا، لمبی لمبی کالز اور ہونٹوں سے چمٹی مسکراہٹ- ناجیہ کا تو سکون غارت کر گیا تھا- وہ فورا اماں کے پاس دوڑی چلی آ ئی
اور کرو ڈرامے کتنی بار میں نے سمجھایا تھا کہ ہوش کے ناخن لو، سوتن کو جھیلنا آسان نہیں ہوتا -سب بڑے بول ہیں، لیکن نہیں تمہیں تو بہت شوق تھا اب کرو شوق پورے – پہلے اماں بہت برسی پھر اس کے بعد آنسو بہتے دیکھ کر ان کا دل پسیج گیا- میں خود آ کر اعظم سے بات کروں گی تم پریشان مت ہونا
اماں نے تسلی دی تھی- نہیں امی ..آپ بات مت کریں کیا پتا ناراض ہو جائیں ،اور ہو سکتا ہے زیادہ شیر ہو جائیں کہ جو بات پہلے ڈھکی چھپی تھی میں خود ہی سنبھالنے کی کوشش کروں گی ورنہ ،ورنہ کیا؟ ورنہ میں ان سے الگ ہو جاؤں گی اماں- وہ سسک سسک کر رونے لگی میں ان کے ساتھ کسی دوسری عورت کا سایہ بھی برداشت نہیں کر سکتی
اور اماں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھری- آج اس کی سالگرہ تھی وہ بڑے دل سے تیار ہوئی تھی نیوی بلو کلر کی ساڑھی جس پر وائٹ رنگ کے جگمگاتے موتی لگے ہوئے تھے- سفید کلر کی ہی لائٹ جولری- آج تو آپ کو میری طرف لازمی پلٹنا پڑے گا اعظم – آئینے میں اپنے سراپے پر ستائشی نظر ڈالتے ہوئے وہ خود سے مخاطب ہوئی – آج ان کی دعوت تھی عدیل کی طرف- شام ہونے والی تھی لیکن اعظم کا کچھ پتہ نہ تھا
اعظم میری برتھ ڈے کیسے بھول سکتے ہیں ؟بلا اخر اسے مایوسی گھیرنے لگی- تبھی ڈور بیل کی آ واز پر وہ دوڑتی ہوئی پہنچی- السلام علیکم بھابھی ہیپی برتھ ڈے -عدیل پھولوں کا گلدستہ لیے کھڑا تھا – اس نے اداس مسکراہٹ سے تحفہ قبول کیا- آپ لاک لگا کر نیچے آ جائیں میں گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں ،عدیل نے کہا- تو وہ چونکی لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی عدیل جا چکا تھا
پھول لے کر اندر آئی تو اس کا فون بج رہا تھا اعظم کا نام دیکھتے ہی اس نے کال پک کر لی- سوری ناجیہ میرے ایک بہت پیارے دوست کی برتھ ڈے ہے مجھے وہاں جانا ہے- تم عدیل کے ساتھ چلی جانا میں تمہیں وہیں جوائن کروں گا بائے-عدیل بھائی اور بھابھی اسے کمرے میں بٹھا کر نہ جانے کہاں غائب ہو گئے، وہ بے چینی سے پہلو بدلتی رہی- تب ہی ٹیرس پر عجیب سی روشنیاں پھیل گئیں
وہ اٹھ کر باہر ٹیرس پر گئی- رنگ برنگے برقی قمقموں سے سجا ٹیرس اسے خوشگوار حیرت میں ڈال گیا- سالگرہ کا سارا اہتمام وہاں کیا گیا تھا- میز کے عین درمیان میں کیک رکھا ہوا تھا جس پر چاندی کے ورق کے ساتھ اس کا نام لکھا تھا -ہیپی برتھ ڈے ناجیہ ائی لو یو الاٹ- وہ اداسی سے مسکرائی- اعظم بھی ہمیشہ ایسے ہی لکھوایا کرتا تھا- اس کی سالگرہ کے کیک پہ- تبھی اسے جاسمین کی مہک نے اپنے حصار میں لے لیا
اعظم اس نے آ نکھیں بند کر لیں ایک انسو بند توڑتا گال پر لڑھک گیا- ہیپی برتھ ڈے اعظم کی جان- بھاری لہجہ اس نے جھٹ سے آنکھیں کھول دیں اعظم آپ حیرت اور خوشی دونوں اس کی آواز میں شامل تھے- تو اور کون ہو سکتا ہے آپ کے اتنے قریب – وہ مسکرا دیا -لیکن آپ تو وہ ابھی بھی حیران تھی- میں نے کہا تو تھا کہ میرے بہت پیارے دوست کی سالگرہ ہے- تو تم ہو نا میری سب سے اچھی دوست- اور وہ عدیلہ – وہ ابھی تک بے یقین تھی خود چیک کر لو
اس نے عدیلہ کا نمبر نکالا – اور کال ملا کر اسے دے دیا- وہ حیرت سے دوسری طرف جانے والی رنگ سنتی رہی – ہاں یار بولو اب ہم اندرآ جائیں – ابھی بھی تیرا رومانس باقی ہے – کال پک ہوتے ہی عدیل کی مسکراتی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی- اعظم نے فون لے کر کال بند کر دی – اب پتہ چلا – میرے لیے سب کچھ تم ہی ہو- سارا کھیل نازیہ کی سمجھ میں آ گیا – اور وہ اس کے سینے سے جا لگی – آپ بہت برے ہیں اعظم- وہ سسک رہی تھی بھئی اب کیک کاٹ لو- ورنہ بھوک سے میں تو شہید ہو جاؤں گا- عدیل اور آمنہ اندر آئے تو وہ جھٹکے سے اعظم سے الگ ہو گئی – آپ نے بہت غلط کیا عدیل بھائی – وہ اب بھی عدیل سے ناراض تھی
جو بھی ہے بھابی اب پھر کبھی دوسری شادی کی حمایت نہ کیجئے گا- ورنہ اگلی بار میں سچ مچ کسی عدیلہ کے حوالے کر دوں گا – آپ کے ہیرو کو- اس کی بات پہ سب ہنسنے لگے – بدتمیز ، اعظم نے اسےآنکھیں دکھاتے ہوئے مضبوطی سے ناجیہ کا ہاتھ تھاما – اور ناجیہ نے دل میں شکر ادا کیا اور خود کو اطمینان دلایا کہ اس کے اعظم کے دل میں صرف وہی تھی صرف وہی
Urdu stories love
دنیا میں جنت
محبت، ذہانت، کیریئر سب اپنی جگہ مگر والدین کی فرمانبرداری زندگی میں جو سکون اور خوشیاں دیتی ہے- اس کا وقت گزرنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے- کون سوچ سکتا تھا کہ ملنسار خوش مزاج سی تائی امی، اپنی بہو کے لیے روایتی ساس ثابت ہوں گی- اور نازک مزاج اکھڑ سی پھوپھو اپنی بہو کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھیں گی – کچھ باتوں کو قسمت پر ہی چھوڑ دینا بہتر ہوتا ہے
آپ سب کو میری یہ باتیں سمجھ میں نہیں آ رہی ہوں گی میں آپ کو شروع سے بتاتی ہوں – صفا نے بی اے کر لیا تھا بس اب اسے میرے شاہ زیب کی دلہن بنا دو- پھوپھو نے خوشگوار انداز میں امی سے کہا- میں اپنے دھیان میں اندر اتے ہوئے دروازے کے باہر ہی رک گئی -ان دونوں نے مجھے نہیں دیکھا – لہذا میں وہیں کھڑے ہو کر بات سننے لگی
میں صفا کے ابو سے بات کرتی ہوں پھر جیسے وہ کہیں -امی نے ٹالنے والے انداز میں کہا، گو وٹا سٹا ہونے کی وجہ سے وہ بھی پھوپھوکی نند تھی اور برابر کی دھونس جما سکتی تھی مگر عمروں کا فرق اور پھوپھو کا مزاج انہیں ہمیشہ زیر رکھتا تھا – حد کردی سیما، سلیم نے بھلا کیا کہنا ہے- میں نے تو شاہ زیب کو بچپن سے کہہ رکھا ہے کہ اپنی بھتیجی کو بہو بناؤں گی
تو مجھے یہ بتاؤ کہ کب رشتہ لے کر آؤں- اس دن شادی کی تاریخ بھی رکھ دیں گے- انہیں فورا برا لگا -جبھی لہجے میں کرواہٹ گھل گئی- ارے آپا ایسی بات نہیں، شاہ زیب سے بڑھ کر کون ہوگا؟ دراصل بڑی بھابی کا بھی صفا کے لیے ارادہ ہے- امی کی دوغلی بات پر میں حیران رہ گئی- نوجوانی کی جذباتیت ،مصلحت اور حکمت جیسے الفاظ سے نا آشنا تھی، درست یا غلط فوری ردعمل میری تسلی کا باعث بنتا تھا
لو بھلا جب معلوم ہے کہ صرف عادل بھائی ہی آپی کو پسند نہیں کرتے بلکہ آپی کا رجحان بھی وہی ہیں- تو صاف منع کر دینا چاہیے تھا- میں اندر ہی اندر امی کی بات سن کر تلملا گئی- مگر پھوپھو کی بات پر مجھے اور بھی غصہ آ یا جو کہہ رہی تھیں، پہلا حق تو میرا ہے مجھے صفا جیسی ہنسنے بولنے والی لڑکیاں پسند ہیں- صبا تو بہت سنجیدہ ہے مگر خیر پھر بھی ایک بھتیجی تو میری ہی بہو بنے گی
ان کے یوں میرے ذہین فتین صبا بچوں پر تبصرے اور حتمی رائے سنتے ہوئے اندر ہی اندرکڑھتی ہوئی واپس کمرے میں چلی آئی – بھتیجیاں نہ ہوئیں بھیڑ بکریاں ہو گئیں-ہم تینوں بہنیں ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں – مگر اس وقت وہ خالی تھا – بمشکل بی اے کی سپلی پاس کر کےآج کل صفا آپی کا مشغلہ ککنگ تھا- طرح طرح کی ترکیبیں آزمانا ان کا مشغلہ تھا- وہ اس وقت باورچی خانے میں مصروف تھی
صبا بجو کو پڑھنے کا بہت شوق تھا – آپی سے سال بھر چھوٹی ہونے کے باوجود دونوں نے ایک ساتھ میٹرک کیا تھا – پھر بجو اپنے خوابوں کو پورا کرنے یونیورسٹی تک جا پہنچی اور زیادہ تر یونیورسٹی کی لائبریری میں ہی وقت گزارنے لگی – ان کے پاس سائنس کے مضامین تھے- انہیں گولڈ میڈل لینا تھا- ڈاکٹریٹ کرنی تھی- اور اللہ جانے ان کے کیا کیا خواب تھے
اس وقت بھی وہ یونیورسٹی سے واپس نہیں آ ئی تھی – آپی اور بجو سے کافی چھوٹے میں اور اسامہ تھے اور ہم دونوں جڑواں تھے – میٹرک کے بعد اس سال ہی میں نے خوشی خوشی کالج میں داخلہ لیا تھا- کالج جا کر میری ساری خوشی پر پانی پھر گیا – کالج میں بھی سکول کی طرح اسمبلی ہوتی- یونیفارم کی پابندی تھی -اور تمام کلاسز اٹینڈ کرنا لازمی تھا- اس لیے آ ج میں نے طبیعت کی نا سازی کا بہانہ بنا کر چھٹی کی تھی
اور یہ احتیاط ضرور کی کہ اسامہ کو میری چھٹی کا علم نہ ہو- اس کا کالج الگ تھا – وہ پبلک بس سے جاتا تو جلدی نکل جاتا- میرے لیے شاہ زیب بھائی کے کہنے پر وین لگوائی گئی تھی- شاہ زیب بھائی ہمارے گھریلو معاملات میں بہت دخل دیتے تھے – رشتے میں تو وہ ہمارے ماموں کے بیٹے تھے مگر میٹرک کے بعد ہی ہمارے گھر آ کر رہنے لگے – اس کی ایک وجہ تو ابو کی نوکری تھی
جس میں دن رات کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں – کچھ امی کے اکیلے پن اور چھوٹے بچوں کا خیال، تو کچھ بڑے شہر میں اچھی تعلیم کا سوچ کر ماموں نے بیٹا بہن کو دیا تھا – میں پہلی جماعت میں تھی جب وہ ہمارے گھر کا فرد بن گئے – اور انہوں نے مجھے اور اسامہ کو پڑھانے کی ذمہ داری سنبھال لی- ہم دونوں آپس میں اتنا لڑتے تھے کہ آپی اور بجو کے لیے ہمیں پڑھانا تو دور کی بات بلکہ صلح صفائی سے بٹھانا بھی مشکل ہو جاتا تھا
انہوں نے شروع سے ہی ہمیں کچھ ڈانٹ اور کچھ لاڈ سے یوں قابو کیا کہ ہم انہیں دل سے بڑا بھائی ماننے لگے- یہیں رہ کر انہوں نے تعلیم مکمل کی، کیریئر بنایا انہیں اس شہر میں رہتے ہوئے اٹھ دس سال ہو گئے تھے – اور آئندہ بھی یہی رہنا چاہتے تھے – اس لیے ماموں نے اپنے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادی کے بعد ہمارے ہی محلے میں ایک مکان خریدا، یوں ماموں اور پھوپھو بیٹے کے ہمراہ یہیں آباد ہو گئے – شاہ زیب بھائی کی رہائش تو بدل گئی مگر وہ آج بھی امی ابو کے لیے بڑے بیٹے کی حیثیت رکھتے تھے
اب پھوپھو نے یہ داماد والا نیا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا- میں کمرے میں اکیلی لیٹے یہی سوچ رہی تھی ابھی پھوپھو ہمارے ہی گھر میں تھی سو میں نے دل میں بات دبا لی- لیکن موقع ملتے ہی میں نے اپنا پیٹ بہنوں کے ساتھ ہلکا کیا- کیا واقعی دونوں کا رد عمل بے ساختہ تھا- آپی کا رونے والا منہ دیکھ کر میں نے مزید کہا – سچی میں نے خود سنا تھا – بلکہ پھوپھوتو کہہ رہی تھی کہ صفا ہو یا صبا کسی ایک کو تو میں ضرور اپنی بہو بناؤں گی- حد ہو گئی میں کہاں سے آ گئی
میرے پاس ابھی شادی کا بالکل وقت نہیں- اپنے نام پر بجو کے چہرے کے تاثرات بگڑ گئے – مجھے شاہ زیب بھائی سے شادی نہیں کرنی- پلیز صبا کچھ کرو- آپا نے ملتجی انداز میں بچوں کو دیکھا، کرنا کیا ہے امی کو بتا دو، بجو نے ناک سے مکھی اڑائی – مجھے بھی عادل بھائی اچھے لگتے ہیں- تائی اماں بھی خوش مزاج ہیں – پھوپھو کی طرح نہیں، بے ساختہ اپنی رائے دیتے ہوئے مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ عادل بھائی اور آپی کی پسند ایک کھلا راز تھا
میرے منہ سے یہ ذکر بڑی بہنوں کو پسند نہ آیا – وہ ہر بات پر مجھے چھوٹی ہو چھوٹی بن کے رہو کہنے کی عادی تھی- اس لیے کچھ بھی کہنے کی بجائے آپی ایک دم سے چپ ہو گئیں – انہیں شاید مجھ سے اس بات کی توقع نہیں تھی – بجو کی گھورتی نظروں سے گھبرا کر میں نے کہا ، وہ امی پھوپھو کو بتا رہی تھی ،تائی اماں کا بھی ارادہ ہے شاید میری دھماکہ دار خبر مجھے ڈانٹ سے بچا گئی
آ پی نے خوش ہو کر بجو کا ہاتھ پکڑ کر زور سے ہلایا ، بس اب تم امی سے بات کرنا، پہلے انہوں نے بات کی ہے تو پہلا حق ان کا ہے-تاکہ امی میری کلاس لیں- معاف کرو بہن ، تم لوگوں کے مسئلے ختم نہیں ہوتے،آ رام بھی نہیں کرنے دیتے – مجھے ابھی اپنا اسئنمنٹ بھی بنانا ہے بجو بیزار ہو گئی- مگر مجھے معلوم تھا آپی انہیں منا لیں گی -اس لیے خاموشی سے اٹھ کر باہر آ گئی
اس کے بعد میرا پورا دھیان امی کی طرف تھا- میں چاہتی تھی کہ جب بات ہو تو مجھے فورا معلوم ہو جائے- یہ موقع بجو کو رات کو ملا- کھانے کے بعد ابو واک کرنے چلے جاتے- اسامہ اس وقت ٹیوشن جاتا تھا- میں اب بجو سے ہی پڑھ لیتی- صرف ریاضی کے لیے اسامہ یا شاہ زیب بھائی سے مدد لینا پڑتی – کیونکہ بچوں نے پری میڈیکل پڑھی تھی- آپی دانستہ کچن میں مصروف ہو گئی اور بجو اپنی اور امی کی چائے لیے ان کے پاس آ بیٹھی
بظاہر میں کتابیں پھیلائے بیٹھی تھی مگر میرا پورا دھیان ان کی طرف تھا – تائی امی نے عادل بھائی کا رشتہ مانگا ہے بجو نے تمہید باندھے بغیر امی سے پوچھا – امی بری طرح چونکی- نہیں تو بس ذکر کیا تھا کہ مجھے صفا عادل کے لیے پسند ہے- تمھیں کس نے بتایا ؟ چھوٹی نے بتایا تھا -اس نے آج آپی آپ کی بات سنی تھی چائے کا کپ منہ سے لگاتے بجو نے سکون سے میری جان نکال دی
میں نے گھبرا کر سر اٹھایا تو امی کی نظریں مجھے ہی گھور رہی تھیں- شرم ہے تمہیں کچھ ،اس لیے کالج سے چھٹی کی تھی کہ چھپ کر باتیں سنو- ان کی ڈانٹ پر میں نے من منا کر صفائی دینے کی کوشش کی- میں تو کام سے آئی تھی پھوپھو خود ہی اتنی زور سے بات کر رہی تھیں – میں خود کو بہت حاضر جواب خوش اخلاق اور پر اعتماد اور نہ جانے کیا کیا سمجھتی تھی- اس لیے کم ہی چپ رہتی- امی غصے میں خاموشی سے مجھے گھورنے لگی
صفا کا رجحان بھی یہی ہے امی ،تائی امی کا مزاج بھی پھوپھو سے اچھا ہے – آپ ان کو منع کر دیں بجو نے ان کے سوال کا جواب سنے بغیر مشورہ دیا تو امی کو غصہ آ گیا- میں تمہاری ماں ہوں یا تم میری ؟ جو مرضی کروں- ابھی جو تائی اچھی لگتی ہے نا ساس بن گئی تو سارے کس بل نکال دیں گی- شکر ہے انہیں یہ پوچھنے کا خیال نہیں آیا کہ بجو کہ اس رشتے کا کیسے معلوم ہوا
ورنہ اب گھوری کی بجائے ڈانٹ پڑتی – تو بھگتے گی خود ہی -کم از کم خواہش تو پوری ہو جائے گی- بجو نے آرام سے کہا وہ تائی کو بھگتے گی، تو تم پھوپھو کو بھگت لینا – بھائی کو انکار نہیں کر سکتی میں – امی نے صاف کہا اور بچوں کو اسی بات کا ڈر تھا – میری شادی کا تو ابھی سوچیے گا بھی مت – چاہے کوئی شاہ زیب آئے یا حاجی – پانچ سال سے پہلے میں نے کوئی شادی نہیں کرنی
انہوں نے قطعی انکار کر دیا – تمہاری پھوپھو آسمان سر پر اٹھا لیں گی تمہارے ابو یہ سب نہیں سنیں گے- امی نے ڈرایا- وہ خود بہت الجھی ہوئی تھی – اس لیے اپنے مزاج کے برعکس غصے میں آ گئیں- پھپھو کو منع کرنا آسان نہ تھا اسی بات سے بجو بھی سوچ میں پڑ گئی – اس وقت تو وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ گئی مگر اگلے دن انہوں نے مسئلے کا حل نکال لیا- ہم شاہزیب بھائی سے بات کر لیتے ہیں وہ سمجھدار ہیں- اب زبردستی تو شادی نہیں کریں گے نا- بجو نے ہم دونوں کے سامنے تجویز رکھی
ان سے بات کیسے کریں گے اور کون کرے گا ؟ آپی نے سوال اٹھایا بات اپنے گھر میں کریں گے- آج رات کو حرا انہیں فون کر کے بلائے گی – ریاضی سمجھنے کے لیے- ابو اور اسامہ تو ہوں گے نہیں – اس لیے بات تمہیں خود کرنا ہوگی- صاف کہہ دینا کہ مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی- آپ کو انکار کرنا ہوگا- بجو نے پورا منصوبہ سمجھایا – سب کچھ ہمارے حسب منشا ہو گیا
بلکہ شاہ زیب بھائی کے آنے سے پہلے امی بھی اپنے کمرے میں عشاء کی نماز شروع کر چکی تھی- سو میدان صاف تھا- وہ ائے تو میں کتابیں لیے منتظر بیٹھی تھی – مرے مرے ہاتھ سے صفحہ پلٹتے ہوئے میں انہیں سوال بتا رہی تھی – جب بجو اورآپی اندر داخل ہوئے – آپی اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ بنا سلام کیے کھڑے کھڑے بولنا شروع کر دیا
شاہ زیب بھائی پھوپھو نے آپ کا رشتہ دیا ہے مجھے آپ سے شادی نہیں کرنی- آپ خود ہی پھوپھو کو منع کر دیں – اگر آپ نے انکار نہیں کیا تو مجھے آپ اچھی طرح جانتے ہیں – انہوں نے جلدی جلدی دھمکانے والے انداز میں بات ختم کی اور داد طلب انداز میں ہماری طرف دیکھا
مگر حیرت انگیز طور پر یہ خبر شاہ زیب بھائی کے لیےنئی نہیں تھی نہ ہی وہ آپی کی جاندار اداکاری سے متاثر ہوئے اور انہیں جانے کا موقع دیا بغیر بولے ٹھیک ہے پھر میں ماموں جان کو بتا دیتا ہوں کہ اپ کی لاڈلی میرے سے شادی نہیں کرنا چاہتی – آپی کو ایسے کورے جواب کی توقع نہ تھی اسی لیے جب جواب نہ سوجھا توصوفے پر بیٹھ کر رونے لگی – پلیز شاہ زیب بھائی اپ تو ہمارے بھائی ہیں
آپ مدد نہیں کریں گے تو ہم کیا کریں گے – ان کے التجائیہ انداز پر ہم دونوں بہنوں نے اپنی اکڑی گردنیں نیچے کر لی – چہرے پر دکھی تاثرات لا کر ہم نے باجماعت رونے کی اداکاری کی – مسئلہ کیا ہے؟ انہوں نے ہمیں گھورتے ہوئے پوچھا – میرے منہ سے بے اختیار نکلا آپ – آپی کے اشارے پر بجو نے بولنا شروع کیا – امی نے بتایا ہے کہ پھوپھو نے بچپن میں ہی بھتیجی کو بہو بنانے کا کہہ دیا تھا
آپ چونکہ یہاں رہتے تھے تو اس بات کا پہلے ذکر نہیں کیا گیا- اب پھوپھو باقاعدہ منگنی کی رسم کرنا چاہتی ہیں صفا ایسا بالکل نہیں چاہتی- آپ تو ہمارے اصلی والی والے بھائی ہیں نا- بجو نے رام کہانی مکمل سنا دی – میں بھائی کے چہرے پر تاثرات جانچنے کی کوشش کرتی رہی – نہ یہ خبر سن کر شاہ زیب بھائی حیرت سے اچھلے – نہ آپی کا انکار سن کر ان کا دل ٹوٹا- بس ہلکی سی ناگواری والے تاثرات کے ساتھ وہ بڑبڑائے تھے
حد کرتی ہیں امی اور پھوپھو – پھر وہ آپی کی طرف متوجہ ہوئے-تو آپ شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی ؟ مجھ سے شادی پر اعتراض ہے یا شادی ہی نہیں کرنی – چاہے کوئی کتنا ہی قریبی یا قابل اعتماد رشتہ ہو لڑکیوں کو اپنے مسائل ماں سے بیان کرنی چاہیے- اور انہی سے مدد مانگنی چاہیے – وہ نصیحتیں کر رہے تھے اور مجھے ہنسی آنے لگی – انہیں ہمارا دادا ابا بننے کا بڑا شوق تھا
اور امی اور دیگر بڑے جانے کیا سوچ رہے تھے ؟ایسے کھڑوس کے ساتھ اچھا ہی ہے آپی کی شادی نہ ہو- عادل بھائی تو بڑے ہنس مکھ ہیں- آپی اور ان کی پسند بھی ہم پر ظاہر تھی بس ایک بار یہ مسئلہ ختم ہو اورباقاعدہ رشتہ ائے تو پھر سب خیر ہی ہے- میں نے دل ہی دل میں سوچا – ہمارے خاندان میں رشتے کے لیے واحد قابلیت خاندان کا ہونا تھا خاندان سے باہر رشتوں کا رواج نہ تھا
شاہ زیب بھائی کو بجو نے صاف صاف بتا دیا کہ علی بھائی اور آپی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں – اس لیے اگر اپ اس رشتے سے انکار کر دیں تو تبھی ممکن ہے کہ ان دونوں کی شادی ہو سکے- جس پر شازیب بھائی نے کہا میں منع کر بھی دوں تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا – کیونکہ میں امی ابو کو اپنی شادی کا مکمل اختیار دے چکا ہوں – اس دن تو بظاہر بات ختم ہو گئی ہم تینوں بہنیں کتنے دن منتظر رہیں کہ شاید کوئی ائے گا
پر اتنے میں تایا ابو اور تائی امی باقاعدہ مٹھائی کے ساتھ آپی کا رشتہ مانگنے چلے آئے – یہ یقینا شاہزیب بھائی کا کام تھا – آپی نے سکھ کا سانس لیا- لیکن بجو کی جان سولی پر لٹک گئی کیونکہ تائی اماں نے نہ صرف رشتہ مانگا بلکہ آپی کا منہ بھی میٹھا کرا دیا-پھپھو نے آپی اور عادل بھائی کے رشتے کو قبول کر لیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میرے لیے ساری بھتیجیاں برابر ہیں اور بجو کا رشتہ شاہ زیب بھائی کے لیے مانگ ڈالا
آپی خوش اور بجو بہت بے چین تھیں- اتنے میں وہ ہوا جو ہم نے نہ سوچا تھا – ابو کے پاس بجو گئی اور کہنے لگی کہ مجھے پڑھنا ہے اپنے خواب پورے کرنے ہیں – آپ ایسا نہ کریں جب ابو کمرے سے باہر ائے تو وہ بہت سنجیدہ تھے – اور بجو چادر تان کر رو رہی تھی – میں نے ان کو کبھی روتے نہ دیکھا تھا – ابو نے پھوپھو کو منع کر دیا تھا اندر خاموشی چھائی ہوئی تھی آپی خود کو مجرم سمجھ رہی تھی کہ ان کی خوشی خراب ہوتے دیکھ کر مجھے ترس آیا
مٹھائی لاؤ مٹھائی لاؤ منہ میٹھا کراؤ ایسی آوازوں کے ساتھ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھل گیا- تائی اماں چہک رہی تھی -بہت وہ باریک ہو بیٹا تائی اماں نے مجھے لپٹا کر پیار کرتے ہوئے کہا- سب بہت خوش تھے- آپ کو بھی مبارک ہو- میں نے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ سے مٹھائی ان کے منہ میں رکھ دی – خیال ایا کہ برابر میں بیٹھی پھوپھو ناراض ہو جائیں گی تو باقی مٹھائی ان کی طرف بڑھا دی
پھوپھو نے ہنستے ہوئے مٹھائی کھا کر مجھے گلے لگا لیا – یہ میری بلبل – میری نظر نے اج سے پہلے اتنا خوش پھپھو کو کبھی نہ دیکھا تھا- میں نے سب کو مٹھائی دی ابا اور ماموں اور تایا ابا نے مجھے بہت سر پر پیار دیا – اتنے میں امی کی اواز سنائی دی کہ چائے لےآؤ – آپی لا رہی ہیں میں نے امی کو جواب دیا – جس پر انہوں نے شعلے برساتی نظروں سے مجھے کچن کی طرف جانے کو کہا
بے وقوف لڑکی ہے یہ اس کا رشتہ شاہ زیب سے طے کر دیا- اور منہ میٹھا کروانے کے لیے بلایا اور یہ خود سب کے منہ میٹھے کرانے بیٹھ گئی – مٹھائی کے ٹوکرے سے گلاب جامن اٹھاتے ہوئے مجھے امی کی آواز سنائی دی اور گلاب جامن میرے ہاتھ سے پھسل گیا- میرے حلق میں آواز پھنس گئی- میں کہنا چاہتی تھی کہ یہ سب کیا ہو گیا ہے
اللہ تمہیں خوش رکھے میری چندا میری دلی خواہش تھی کہ میں شاہ زیب کو اپنا داماد بناؤں- امی نے مجھے بہت پیار سے سینے سے لگا لیا- صبا بجو نے اپنی بات منوا لی ،انہوں نے ابو کو احساس دلایا کہ وہ ابھی شادی سے دور رہنا چاہتی ہیں- میری تو کوئی پسند نہیں تھی- اس لیے سب لوگوں نے میری اور آپی کی شادی ایک ساتھ کر دی- صبا بجو کی شادی حسب خواہش چند سال کے بعد ہوئی
سب اپنے گھروں میں بہت مطمئن اور خوش زندگی گزار رہی ہیں- اور مجھے تو دنیا میں جنت مل گئی – عمروں کا فرق اور مزاج کے بارے میں لگائے سارے اندیشے غلط ثابت ہوئے – شاہ زیب میرا بہت خیال رکھنے والے شوہر ہیں – امی ابو کے فرمانبردار بیٹے تھے اور اب عادل بھائی کی طرح داماد بھی نہیں بنے- پھوپھو نے بھی تائی اماں کی طرح ساس بن کر نہیں دکھایا
کبھی پھوپھو سے ملتی ہوں تو وہ پیار سے چھیڑتی ہیں کہ یہ واحد لڑکی ہوگی جس نے رشتہ طے ہونے پر اپنے ساس اور سسر کا منہ خود میٹھا کرایا- شاہ زیب شرارت سے کہتے ہیں میرے جیسا ہیرا جسے ملے گا اس کی خوشی کا کیا ٹھکانہ ہوگا- میں بظاہر تو بہت چڑتی ہوں مگر بات تو یہ سچ ہے
Pingback: Short moral stories in urdu -