ایک دن کی محبت
اسے اب تک یقین نہ آ رہا تھا کہ جس کو اس نے چاہا وہ اتنی اسانی سے اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا – نہ کوئی سماجی روڑا اٹکا درمیان میں، نہ کوئی گھریلو اعتراض اٹھا، سب ایک دم سے بالکل فٹافٹ ہو گیا -اور یوں آسانی سے ہوا کہ وہ خود حیران رہ گئی -آخر اسے پہلے کہاں پتہ تھا کہ ادھر سے سمیر بھی اسے اتنا ہی چاہتا ہے،جتنا وہ اسے- وہ بھی اسی کی طرح اس کی محبت میں اندر تک ڈوبا ہوا ہے
اور جب اسے علم ہوا تو وہ جیسے آسمان پر پہنچ گئی- پیر زمین پہ اب ٹکنے تھے بھلا- ہواؤں میں اڑنے لگی- دیکھتے ہی دیکھتے پھوپھو کی نند آئی رشتہ ڈالا- اور اس کے خاندان سے ہاں کرا کے اٹھی- اس کی تو مراد بھر ائی تھی ساری رات کمرے میں لڈیاں ڈالتے گزری- اور اگلے دن پھوپھو کی نند نے جلدی منگنی کا شور مچا دیا اس کے گھر والے پھوپھو کی دی گئی تسلیوں سے کافی مطمئن اور شاداں تھے منگنی کی ہاں کرتے ہی تاریخ دے دی
اور پھر دونوں طرف منگنی کے ہنگامے جاگ اٹھے- ایسے میں ایک دن سمیر منگنی کا جوڑا چیک کرانے کی خاطر ان کے گھر چلا آیا، تو دروازہ کھولتے ہی وہ سرخ شرم سے ہو گئی،اندر بھاگ جانا چاہا مگر سمیر کی پھرتی نے اس کا ارادہ ناکام کر دکھایا، اس نے اسے کلائی سے پکڑا خوش ہو، اور وہ کیا کہتی پلکیں جھکا کر ساتھ میں سر بھی ہلا دیا- گویا جواب مثبت تھا، سمیر کا چہرہ کھل اٹھا منگنی کے بعد تمہیں فون کروں گا
اس نے سرگوشی سے اسے آس لگائی- تو وہ اگلے دس دن فون کی اسکرین کو دیکھ کر پاگل ہو گئی- مگر سمیر کو شاید یاد ہی نہیں کہ اس نے یہ بات کہی تھی- کاش وہ اس وقت وعدہ نہ کرتا تو اج میں اس ناراضگی میں ڈوبی فون ہی کی تو نہ ہو کر رہ جاتی-وہ اندر ہی اندر خود کو کوستی رہی کہ اس ہی وقت اس سے پکا وعدہ کیوں نہ کرا لیا
منگنی کے دوسرے ہفتے فون کے اس پار سے آتی سمیر کی بھاری مگر میٹھی اواز نے اس کے حواس ہی نہیں ساتھ اس کا دل بھی کھینچ لیا- کیسی ہو اس کا پوچھنا تھا کہ اس کا جی چاہا اپنا دل کھول کر سارے کا سارا اس کے سامنے رکھ دے – مگر حیا اڑے آ گئی ،وہ دھیما سا مسکرا دی، اچھی ہوں وہ تو میں بھی جانتا ہوں اس اچھے پن نے تو جیسے اچھے خاصے عقل شعور والے بندے کو بے عقل کر دیا ہے
سمیر نے اپنے جرم محبت کا اعتراف کیا-تو اس کا دل بھی دھڑک گیا پھر اس دن سمیر نے بہت باتیں کی تھیں- بہت سے وعدے کیے- بے شمار عہد و پیماں باندھے- وہ اس کی محبت میں اندر تک بھیگتی چلی گئی- انے والے دنوں میں بھی سمیر نے ہر پل ہر لحظہ اسے اپنی محبت کا یقین دلایا تھا- اسے بتا رہا تھا کہ اس کے بغیر اس کے دل کس قدر بے چین اور راتیں کتنی بے سکون ہیں
وہ اس کی ایسی محبت بھری باتیں سن کر خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھنے لگی -جس کا چاہنے والا منگیتر تھا جو اس کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتا – وہ پھر کاہے نہ خود پہ اتراتی- سمیر تو جلدی شادی کرنے کا خواہشمند تھا- مگر مناہل کے گھر والے ہی تھوڑا ٹال مٹول کر رہے تھے، کہ بیٹی بیاه دینا آسان کہاں ہے- سوئی سے لے کر سلائی تک تیاری ہوتی ہے- ابھی کیسے شادی ہو سکتی ہے ؟اور اس کے تو ابھی بی ایڈ کے ایگزامز ہونے والے ہیں- ایسے کیسے ایک دم سے سب کچھ چھوڑ کر شادی کردیں
جبھی سمیر کے گھر والوں سے کچھ وقت کی مہلت مانگ لی تھی – وہ بھی اس منگنی کے پیریڈ کو ابھی انجوائے کرنا چاہتی تھی- تب ہی خاموش رہی – وہ بھی دو دو تین تین دن بعد لازمی کال کرتا اس کی کم سنتا اپنے دل کی ساری باتیں سناتا- اور اس کا دل بے قابو کیے جاتا ایسے ہی میں محبت منانے کا وہ دن بھی ا پہنچا، جس دن تمام نوجوان، اپنی اپنی محبت کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں
اس دن وہ سارا دن فون کے ساتھ چپکی بیٹھی رہی اور انکھیں تھیں کہ باہر دروازے پر جمی تھی- جہاں سے اسے سمیر کے کسی سرپرائز آنے کا انتظار تھا- اسے پورا یقین تھا تو وہ اج کا دن قطعی طور پر مس نہیں کرے گا- پھول اور کارڈ لازمی بھیجے گا- مگر صبح سے دوپہر دوپہر سے شام اور پھر شام سے رات ہو گئی ، اس کا میسج تک نہ آیا ،حالانکہ اس نے وہ ساری رات اس کے کال کے آنے کا انتظار بھی کیا تھا ،مگر فون بج کر نہ دے رہا تھا
– جب رات اس کی انکھ لگی، تب اس کی انکھیں کافی حد تک سرخ اور بھیگ چکی تھیں، خالی دامن سی وہ کب سوئی اسے کچھ معلوم نہ ہو سکا
اگلے دن تک اس کا دل بھجا بجھا اور اندر خاموش خاموش رہا -جبھی تو وہ من ہی من میں سمیر سے ناراض ہو گئی- اور پھر جب اگلے دن اس نے فون کیا تو اس نے جان بوجھ کر کال کاٹ دی- دوسری بار بیل ہوئی تو کال ریسیو بھی نہ کی- بیل پہ بیل بجنے لگی اس نے کان لپیٹ لیے انجان بن گئی- سمیر کے اندر کھٹک سے گیا وہ پریشان سا ہو کر گھر پہنچ گیا – سامنا بھابھی سے ہوا تو بے اختیار اس نے مناہل کو لنچ کرانے کا کہہ دیا
بھابھی نے امی سے اجازت لے کر مناہل کو تیار ہونے کو کہا، تو وہ مان کر نہ دی، پھر بھابھی نے دھمکایا کہ سمیر اندر آ جائے گا خود لینے- تو پھر اسے بادل نخواستہ تیار ہو کر اس کی گاڑی میں آ کر بیٹھنا پڑا- مگر وہ سارا راستہ خاموش ہی رہی- سمیر بار بار اسے بلاتا رہا مگر اس نے چپ کا روزہ نہ توڑا – آخر سمیر تپ گیا – کیا ہے یار یہ تم کس طرح سے میرے ساتھ بیٹھی ہو
اپ کو کیا سمجھ میں آتا ہے -اس نے دانتوں پہ دانت جمائے- تمہاری بے وجہ کی خاموشی میری سمجھ سے باہر ہے – اگر کوئی ناراضگی ہے تو بتا دو- اپ کو میری ناراضگی کی کب سے پرواہ ہونے لگی- اس نے نم انکھوں سے کہا تو وہ نرمی سے مسکرا دیا- تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ محترمہ ناراض ہیں- وہ شریر ہوا تو مناہل نے سر جھٹک دیا- وجہ پوچھ سکتا ہوں جو دل کے قریب ہوتے ہیں دلوں کے راز جانتے ہیں ،اسے طنز کیا تو مسکراتے لب اس کے وہیں بھینچ گئے
مناہل مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ تمہارا رویہ کیوں اور کس وجہ سے ایسا ہے اوکے اگر یہ بات ہے تو میں چلی جاتی ہوں- وہ ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی- اس نے بے ساختہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا- محبت یوں اسانی سے چھوڑنے والی چیز نہیں ہوتی- اس کا لہجہ سنجیدہ تھا- محبت وہ ہنسی ،اپ کو واقعی مجھ سے محبت ہے؟ کیوں کیا تمہیں کوئی شک ہے وہ اس کی انکھوں میں دیکھنے لگا- تو پھر یہ محبت خاص محبت کے دن کہاں غائب ہو گئی تھی؟ کہ پھول تو بھیجنا درکنار فون تک نہ کیا
اور نہ ہی کوئی اظہار- اوہ تمہاری ناراضگی کی وجہ یہ ہے- اسے پل بھر میں ساری بات سمجھ میں آ گئی – کیا اس سے بھی بڑی کوئی وجہ ہو سکتی ہے ؟ادھر آؤ اور ارام سے بیٹھو- اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسے سامنے والی کرسی پر بٹھا لیا- مگر اس کا منہ ابھی بھی پھولا ہوا تھا میری بات سنو مگر غور سے, اس نے پورا منہ انگلی سے اپنی جانب کیا- میری محبت کیا اتنی کمزور ہے کہ تم نے اسے صرف ایک دن پر لازم کر کے چھوڑ دینا چاہا، وہ ایک دن بہت خاص ہوتا ہے مسٹر سمیر -اس کے لہجے میں اب بھی طنز تھا
ہاں ان لوگوں کے لیے جو محبت صرف ایک دن کرتے ہیں -جنہیں روحانی محبت کے چاہ نہیں ،بلکہ جسمانی محبت کی ہوس ہوتی ہے -اس کے ایک ہی طنز نے اس کی ساری ہوا نکال دی- تم نے میری محبت بھی صرف ایک دن کے ترازو پر رکھ کر تولنا چاہی – مجھے افسوس ہے کہ تم نے ایسا کیا- سنجیدہ لب و لہجہ اب ناراضگی میں ڈوبنے لگا تھا
14 فروری کی محبت ان کمزور لوگوں کی کمزور محبت کی نشانی ہوتی ہے جو سال بھر ادھر ادھر منہ مارتے اور وقت ضائع کرتے رہتے ہیں -اور اسی دن کے انتظار میں رہتے ہیں کہ وہ کسی اپنے کو اس دن وش کر لیں گے -اس پر اپنی محبت یا طاقت کا ثبوت دیں گے کہ اس کے دل میں وہ بستا ہے، اور باقی کے سال کے دن ضائع کر دیتے ہیں
یہ تو وہی جان سکتا ہے- جو سچی محبت کا طلبگار اور خواہاں ہوتا ہے- اس کی انکھوں میں دیکھتا اس کا لفظ لفظ سچ اگل رہا تھا- مناہل کا دل ڈوب ڈوب کر ابھرنے لگا- سچ میں مناہل میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتا تھا مگر پھر بھی اگر تم یہی چاہتی ہو کہ اپنے محبت کا اظہار صرف 14 فروری کو کروں تو ٹھیک ہے -پھر سال بھر میرا انتظار کرو- میں اگلی 14 فروری کو تمہیں پھول کارڈ بھیج دوں گا
اور فون کر کے اپنی محبت کا اظہار بھی کروں گا- باقی کے سارے دن تم انتظار کرنا اوکے اب اگلے سال ملیں گے خدا حافظ- سمیر سنجیدہ چہرہ لیے تیزی سے اٹھا اور مڑ گیا -مگر مناہل کو تیزی سے ہوش انے میں وقت نہ لگا اور اس نے اس کا بازو پکڑ لیا – وہ رک گیا مناہل نے کان پکڑ لیے اور ساتھ ہی اس کی انکھیں بھر ائی- تو سمیر کا دل ڈوب گیا-میں بہت شرمندہ ہوں اور بہت نادم بھی
وہ رو رہی تھی ابھی جو تم نے کہا اس طرف تو میرا دھیان ہی نہ گیا- میں فضول میں اتنا جذباتی ہو گئی -ارے پاگل سمیر نے فورا اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھاما- ہو جاتا ہے نادانی میں کبھی کبھار ایسا- لیکن یاد رکھنا سمیر تمہارا ہے اس کی محبت خاص دنوں کی محتاج نہیں- وہ جب چاہے اظہار کر دے یہ تو رواں رہنے والی چیز ہے- صرف ایک دن میں سمٹنے والی نہیں- اور اس کی انکھوں میں وہ ٹھاٹیں مارتا ہوا محبت کا سمندر دیکھتی چلی گئی–