گمراہ
سبک روی سے چلتی ٹھنڈی ہوائیں ماحول کو بے حد خوش گوار بنا رہی تھیں۔ وہ اپنے جھولے پر پتنگ بنی جھول رہی تھی۔ جب اچانک ہی اس کے پاؤں سے کوئی شے ٹکرائی تھی اس نے چونک کر جھولے کو بمشکل روک کر اس شے کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہ پتھر میں لپٹا کوئی کاغذ تھا۔ اس نے گھبرا کر دائیں بائیں دیکھا اور اسے اپنے دوپٹے کے پلو میں چھپا کر غیر محسوس طریقے سے چھت کی طرف دیکھا تھا۔
سامنے والے گھر کی بالکونی میں اسد کھڑا اسے ہی مسکرا کر دیکھ رہا تھا یہ لوگ عزیز دار تھے۔ پرانی جان پہچان تھی۔ مگر حال ہی میں ادھر شفٹ ہوئے تھے۔ وہ لفظ محبت سے نابلد ضرور تھی ۔ مگر اماں کے ساتھ مستقل مزاجی سے ٹی وی دیکھ دیکھ کر وہ کئی باتوں کو وقت سے پہلے ہی سمجھنے لگی تھی۔ وہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اندر کمرے میں بھاگ گئی تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے علی سے جا ٹکرائی تھی۔
“اندھی ہو کیا نظر نہیں آتا؟” علی کے ماتھے پر چوٹ لگی تھی اور اس کے پاؤں پر وہ چڑھ گئی تھی ۔ ایک تو اس لڑکی کو نجانے کب عقل آنی ہے میں کہتی ہوں لڑکی ذات ہے سنبھل کر چلا کر- اے ندرت، سن اپنی بیٹی کو کوئی ادب آداب آداب سکھا۔ وادی جان کے لیکچر پر ٹی وی میں ڈوبی ندرت نے برا منہ بنا کر ماں کی طرف دیکھا ضرور تھا مگر دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
علی کرکٹ کھیلنے چلا گیا تھا جبکہ دعا کمرے میں میں گھس گئی تھی۔ عالیہ بیگم نے تاسف سے بہو کی طرف دیکھا تھا۔ جیسے ہی ٹی وی پر مظلوم بہو کے ڈائیلاگ آنے لگے تو ندرت نے تیزی سے ٹی وی کا والیم بڑھا دیا تھا۔ جب کسی کی بیٹی بیاہ کر لائی جاتی ہے۔ اس پر ظلم کیا جاتا ہے تب یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ گھر میں اپنی بھی کوئی بچی بیاہنے کے قابل ہے۔
اور ٹی وی میں بہو کے اس ڈائیلاگ کے بعد ساس نے اس کے منہ پر زور دار چانتا رسید کیا تھا، بہو فل میک اپ میں نیر بہا رہی تھی۔ ندرت نے کن اکھیوں سے ساس کو دیکھا تھا۔ جبکہ عالیہ نے دکھ سے گہری سانس بھری تھی۔ ندرت اس بات سے قطعی طور پر بے خبر تھی کہ اندراس کی بیٹی لو لیٹر پڑھ کر آنے والے دنوں کے منصوبے بنا رہی ہے۔
ندرت تیزی سے دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف بار بار مضطرب انداز میں کچن سے باہر ملحق لاؤنج میں لگے ہوئے وال کلاک میں وقت دیکھ دی تھی ۔ آج وہ علی کا من پسند آلو گوشت بنارہی تھی۔ دعا بھی کھا تو لیتی تھی مگر اسے بھنا ہوا گوشت پسند تھا۔ وہ شوربا پسند نہیں کرتی تھی اس لیے وہ خوب اچھی طرح سے گوشت کی بھنائی کر رہی تھی ۔
مگر اس کے ذہن میں بیک وقت بہت سی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ مگر اسے زیادہ سرعت سے کام نبٹا کر رات کا لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مس ہو جانے والا ڈراما نشرمکرر میں دیکھنا تھا۔ اتفاق سے بچیوں کے گھر آنے کا بھی یہی وقت تھا۔ علی میٹرک میں تھا اور دعا سیکنڈ ایئر کالج کی طالبہ تھی وہ قدرے توقف سے گھر آتی تھی۔
اس نے بھنا گوشت تھوڑا سا نکال کر الگ باؤل میں رکھ دیا تھا۔ اور باقی گوشت میں آلو ڈال کر شوربا بنا دیا تھا ہلکی آنچ پر ڈھک کر وہ آٹا گوندھنے لگی تھی۔ جب اس کی ساس نے کچن میں جھانکا تھا۔ بہو کافی دیر پہلے چائے کا کہا تھا کیا بنی نہیں۔وہ جی بھر کر بد مزہ ہوئی تھی۔ جی بنارہی ہوں، آپ سکون سے بیٹھ جائیں۔ ندرت نے تیزلہجہ میں کہا تھا اس کے لئے تو ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔
میں کہتی ہوں ان ڈراموں میں کچھ نہیں رکھا، اپنی بچی پر نگاہ رکھو یہ عمر بہت نازک ہوتی ہے۔ صبح وہ کالج جاتے ہوئے لپ اسٹک اور آنکھوں میں کاجل لگا کر گئی ہے۔ کیا کنواری لڑکیوں کے یہ لچھن ہوتے ہیں۔ کچھ کرو ایسا نہ ہو کہ گیا وقت ہاتھ نہ آئے۔ ساس کا اتنا کہنا تھا کہ ندرت کو تو گویا پتنگے لگ گئے تھے، اس نے وہی آٹے والے ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے سخت لہجہ میں ساس سے دوبدو ہو کر کہا تھا۔
نہ آپ صاف صاف یہ کیوں کہتیں ہیں آپ کو میرا ٹی وی دیکھنا کھلتا ہے اور عامر نے ٹی وی میرے کمرے میں لگا دیا جبکہ آپ چاہتی تھیں کہ ادھر برآمدے میں لگ جائے ، آپ کی نہیں مانی تو اب میری معصوم بچی کو بددعایں دینے پر اتر آیئی ہیں۔ ندرت کی زبان کے آگے تو خندق تھی اس نے ساس کو سنا دیں۔
مگر عالیہ اس قدر بد تمیزی کے بعد بھی لب بستہ تسبیح کے دانے پھیرتی ہوئی اپنے کمرے میں داخل ہوگئی تھیں۔ اب کہاں کی چائے کہاں کا ہوش… ندرت فطرتا ایک نیک دل لڑکی تھی جب بیاہ کر اس گھر میں آئی وہ سیدھی سادی تھی۔ رفتہ رفتہ ارد گرد کے ماحول اور نت نئے سازشی ڈراموں سے وہ ساس بہو اور نند بھاوج کی گیم کھیلنے لگی تھی۔ وہ برملا کہتی تھی کہ یہ اصلاحی ڈرامے ہیں۔
اور واقعی وہ ڈرامے اصلاحی ہی ہوا کرتے تھے مگر وہ اینڈ تک صبر کئے بنا اپنے حصے کے اور اپنی طرف داری پر چند چنیدہ ڈرامے گھر میں فل والیوم پر لگایا کرتی تھی- وہ تو ان سے بھی کوئی نصیحت حاصل نہیں کرنا چاہتی تھی وہ بس چاہتی تھی کہ ساس اور نند کو ہر صورت نیچا دکھا سکے۔ جب ساس کے حق یا دفاع میں کوئی سین آتا تو وہ جھٹ چینل بدل دیا کرتی تھی۔
معاشرے میں جنم لینے والی کہانیاں معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں، کچھ اس انداز میں کہ انسان اصلاح معاشرہ کی طرف پہلا قدم رکھے مگر وہ تو بس آنکھ بند کر کے اپنی من پسند راہ پر گامزن رہتی تھی۔ اور اس معاملے میں وہ کسی کی بھی نہ سنتی تھی۔
اس دن بہت دیر ہو گئی مگر دعا گھر نہیں لوٹی … شام ڈھلنے کو تھی۔ تب دعا کی ایک دو دوستوں کو فون کیا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو دو دن سے کالج ہی نہیں آرہی ہے۔ اب تو ندرت کی جان نکل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کے دروازے اپنے بندے پر کھول رکھے ہیں وہ تو کہتا ہے۔ ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے نواز دوں۔ اس وقت ملامت کے آنسو موتیوں کی طرح اس کی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔ ساس طعنے دینے کے بجائے حوصلہ بڑھا رہی ہیں۔
لو یہ گلوکوز والا پانی پی لو پھر تمہارا بی پی لو ہو جاتا ہے۔ ہائے اماں اعلی کے ابا گھر آنے والے ہیں۔ میں ان کو کیا جواب دوں گی۔ ایسا کریں اس پانی میں زہر ملا دیں تا کہ یہ قصہ ہی ختم ہو- وہ مسلسل رو رہی تھی ۔ توبہ کرو بہو۔ ایسے نہیں کہتے۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے وہ اپنے بندوں پر بھی ظلم نہیں کرتا ہاں مگر جو وہ خود اپنی جانوں پر کر بیٹھتے ہیں ۔ تم معافی مانگو، مدد مانگو وہ ضرور سنتا ہے۔
ندرت آج شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ ڈراموں اور اصل زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ساس کی باتوں سے اس کے دل کو ڈھارس بندھی تھی۔ اسی وقت دعا علی کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی۔ دعا کانپ رہی تھی اس کے چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ اس کو میں قریبی کیفے ٹیریا سے لایا ہوں ، سامنے والے اسد کے ساتھ پیزا کھا رہی تھی ۔
یہ سنتے ہی ندرت کے تو اشتعال کی انتہا نہ رہی تھی۔ وہ کچھ سخت سست کہنے اور مارنے والی تھی جب گھر میں عامر داخل ہوئے تھے۔ یہ دعا کیا اب آئی ہے کالج سے، اس سوال پر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ لیکن عالیہ بیگم نے بڑے سبھاؤ سے کہا تھا۔ گھر تو آ گئی تھی ۔ اب علی کے ساتھ دوست کے گھر کچھ نوٹس لینے گئی تھی اس کا ٹیسٹ ہے نا۔
ماں کے سامنے عامر کچھ نہ بولے اور صحن میں لگے نلکے سے منہ ہاتھ دھونے لگے تھے۔ عالیہ کے اشارے پر سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے تھے۔ دعا جھٹ کمرے میں چلی گئی تھی اور ندرت ساس اور شوہر کے لیے چائے بنانے لگی تھی۔ آج ندرت نے پہلی مرتبہ دل سے عالیہ کے لیے چائے بنائی تھی۔ اور تب اس کے ہاتھ سے ٹرے چھوٹے بچی تھی، جب عامر نے کہا۔
اماں! اپنی دعا کے لیے فرجاد کے بیٹے اسد کا رشتہ آیا ہے۔ ارے اسد تو بہت اچھا لڑکا ہے تم فورا ہاں کہہ دو عالیہ کی بات پر ندرت نے ساس کو ممنونیت سے دیکھا تھا۔ عامر نے ہنکارا بھرا تھا۔ مگر ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے۔ وہ متامل ہوئے۔ دیکھو بچیاں مناسب وقت پر اپنے گھر کی ہو جائیں تو اچھا ہے بعد میں بے شک پڑھتی رہے- ماں کی بات پر وہ مسکرا کر بولے تھے۔ ٹھیک ہے اماں ! پھر کل ہی چلتے ہیں بات پکی کر آتے ہیں۔
ندرت کی آنکھ نم مگر لب مسکرا رہے تھے۔ اور دعا اندر اللہ سے سچی توبہ کر رہی تھی کہ گمراہی سے رستے سے بچ گئی۔ اس نے اسد سے واشگاف لفظوں میں کہا تھا کہ وہ اب اس سے روز روز مل نہیں سکتی، سیدھے راستے سے رشتہ بھیجے وہ خوش تھی۔ اور اللہ تعالٰی نے اس کا پردہ رکھ لیا۔ اس نے اللہ تعالٰی سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی گمراہی کے گڑھے میں نہیں کرے گی۔ وہ آنسو پو نچھ کے عزم کر چکی تھی۔ کل کی منگنی کی تیاری بھی تو کرنی تھی۔